نجاست غلیطہ کتنی مقدار معاف ہے؟ دانت وغیرہ سے خون نکلے تو اس سے وضوٹوٹنے کا حکم

سوال کا متن:

کپڑوں پر کتنی مقدار میں نجاست لگی ہو کہ نماز سے پہلے س کی دھلائی کرنا ضروری ہے ؟
(۲) دانت ہونٹ یا جسم کے کسی اور حصے سے کتنی مقدار میں خون نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے کیا ایک خون کا قطرہ بھی کافی ہے ؟
(۳) اگر کھانے کا ذائقہ منہ میں ہو یا دانتوں میں بوٹی یا روٹی کا ٹکڑا پھنسا ہو تو کیا اسے نماز ہوجاتی ہے ؟
(۴) نماز کے دوران اگر پیشاب قصیدة تیز ہوجائے تو کیا نماز جاری رکھنی چاہیے یا نماز توڑ دینی چاہیے ؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:578-117T/sn=8/1440
(1) اگر انسان کا پیشاب،خون وغیرہ جیسی نجاست (یعنی نجاست غلیظہ) ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار سے زیادہ بدن یا کپڑے پر لگ جائے تو اس کے ساتھ نماز شرعا درست نہیں ہے، اگر ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار یا اس سے کم لگی ہو تو اس کے ساتھ نماز درست ہوجاتی ہے ؛ لیکن نماز مکروہ ہوتی ہے،ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار لگی ہونے کی صورت میں زیادہ کراہت ہے، اس سے کم لگی ہونے کی صورت میں نسبةً کم۔
النجاسة إن کانت غلیظة وہی أکثر من قدر الدرہم فغسلہا فریضة والصلاة بہا باطلة وإن کانت مقدار درہم فغسلہا واجب والصلاة معہا جائزة وإن کانت أقل من الدرہم فغسلہا سنة وإن کانت خفیفة فإنہا لا تمنع جواز الصلاة حتی تفحش. کذا فی المضمرات.(الفتاوی الہندیة 1/ 58،ط:زکریا)
(2)          اگر دانت یا منھ سے خون نکلا اور خون کی سرخی تھوک پر غالب آگئی تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ البتہ مغلوب یعنی محض خون زرد ہونے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا اگر بدن کے کسی اور حصے سے خون نکلے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اپنی جگہ سے بہ جائے (یا اتنا خون ہو کہ بہ سکے) تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اگر خون نہ بہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
(ومنہا) ما یخرج من غیر السبیلین ویسیل إلی ما یظہر من الدم والقیح والصدید والماء لعلة وحد السیلان أن یعلو فینحدر عن رأس الجرح. کذا فی محیط السرخسی وہو الأصح. کذا فی النہر الفائق. الدم إذا علا علی رأس الجرح لا ینقض الوضوء وإن أخذ أکثر من رأس الجرح. کذا فی الظہیریة والفتوی علی أنہ لا ینقض وضوء ہ فی جنس ہذہ المسائل. کذا فی المحیط.(الفتاوی الہندیة 1/ 10)
(و) ینقضہ (دم) مائع من جوف أو فم (غلب علی بزاق) حکما للغالب (أو ساواہ) احتیاطا (لا) ینقضہ (المغلوب بالبزاق) والقیح کالدم والاختلاط بالمخاط کالبزاق.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/267،ط: زکریا)
(3) منھ میں کھانے کا ذائقہ ہونے کی صورت میں تو نماز بہر حال ہوجاتی ہے ؛ البتہ روٹی کا ٹکڑا منھ میں ہونے اور اسے نگلنے کی صورت میں یہ تفصیل ہے کہ اگر چنے کی مقدارسے زیادہ ہوتو نماز نہ ہوگی ورنہ ہوجائے گی ؛ لیکن بہرحال نماز سے پہلے اچھی طرح کلی وغیرہ کرکے نماز پڑھنی چاہئے؛ تاکہ منھ میں ذائقہ اسی طرح دانتوں میں کھانا وغیرہ نہ رہ جائے۔
وإن أکل أو شرب عامدا أو ناسیا تفسد صلاتہ. کذا فی فتاوی قاضی خان إذا کان بین أسنانہ شیء من الطعام فابتلعہ إن کان قلیلا دون الحمصة لم تفسد صلاتہ إلا أنہ یکرہ وإن کان مقدارالحمصة فسدت. کذا فی السراج الوہاج ناقلا عن الفتاوی وہکذا فی التبیین والبدائع وشرح الطحاوی ذکر البقالی وہو الأصح. ہکذا فی البرجندی ولو ابتلع دما بین أسنانہ لم تفسد إذا کانت الغلبة للریق. کذا فی السراج الوہاج.(الفتاوی الہندیة 1/ 102)
(4) پیشاب بہت زیادہ تیز ہونے کی صورت میں نمازتوڑ دینی چاہئے پھر پیشاب سے فارغ ہوکر دوبارہ نماز پڑھ لے۔
(قولہ وصلاتہ مع مدافعة الأخبثین إلخ) أی البول والغائط. قال فی الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ، فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت، وإن أتمہا أثم لما رواہ أبو داود لا یحل لأحد یؤمن باللہ والیوم الآخر أن یصلی وہو حاقن حتی یتخفف ، أی مدافع البول، ومثلہ الحاقب: أی مدافع الغائط والحازق: أی مدافعہما وقیل مدافع الریح اہ. وما ذکرہ من الإثم صرح بہ فی شرح المنیة وقال لأدائہا مع الکراہة التحریمیة.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/408، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168907
تاریخ اجراء :May 2, 2019