بال كٹوانے كی ناجائز شكلیں كیا كیا ہیں؟

سوال کا متن:

حضرت قزع کی شرعی تفصیل بیان کر دیجیے ۔ کیا فوجی کٹ بال یعنی اطراف سے انتہائی باریک اور اوپر ذیادہ چھوڑنا اس میں داخل ہے ، واضح رہے کہ جواب حلق اور تقصیر دونوں ہی صورتوں میں درکار ہے ۔ لہذا قصر اس انداز میں کروایا جائے کہ سر کے مختلف حصوں کے بالوں میں واضح فرق نظر آئے تو کیا یہ ‘ قزع ’ میں شمار کیا جائے گا ۔ اگر واضح فرق نہ ہو تو کیا ماڈرن کٹنگ جائز ہے کیونکہ زلفیں رکھی جائیں تو بھی اگلے بال پچھلے بالوں سے لمبے ہی ہوتے ہیں۔
اللہ سیف اللہ خواجہ بلیک برن یوکے

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1200-202T/B=1/1440
(۱) علامہ ابن قیم نے قزع کی چار شکلیں بیان فرمائی ہیں۔
۱۔ سرکے سارے بال نہ مونڈنا؛ بلکہ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے بادلوں کی طرح ٹکڑیوں میں مونڈنا۔
۲۔ درمیان سے سر کے بال مونڈنا، اور اطرف سے چھوڑ دینا ۔
۳۔ اطراف مونڈنا اور درمیان سے سرکے بال چھوڑ دینا۔
۴۔ آگے سے بال مونڈنا اور پیچھے سے چھوڑ دینا۔
(۲) جی ہاں بال کٹوانے کی یہ صورت قزع میں شامل ہے۔
(۳) فوجی کٹ میں حلق والی صورت تو قزع میں شامل ہے اور قصر بنابر تشبہ خلاف سنت اور مکروہ ہے۔
(۴) بطور فیشن ماڈرن کٹنگ (کہیں سے کم اور کہیں سے زیادہ بال کٹوانا) بھی خلاف سنت اور مکروہ ہے۔
والقزع أربعة انواع: أحدہا: أن یحلق من رأسہ مواضع من ھاھنا و ھاھنا ․․․․․․․․ الثانی: أن یحلق وسطہ ویترک جوانبہ ․․․․․․․․ الثالث: أن یحلق جوانبہ ویترک وسطہ ․․․․․․․․ الرابع: أن یحلق مقدمہ ویترک موٴخرہ وہذا کلہ من القزع ۔ تحفة المودود بأحکام المولود: ۱۴۷-۱۴۸، الباب السابع، ط: دار علم الفوائد بیروت۔
ویکرہ القزع: وہو أن یحلق البعض ویترک البعض۔ رد المختار: ۹/۵۹۴، کتاب الحظر والاباحة، باب الاستبراء وغیرہ، ط: زکریا دیوبند۔
عن ابن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن القزع۔ فتح الباری: ۱۰/۳۷۶، کتاب اللباس، باب القزع حدیث نمبر ۵۷۱۰، ص:۵۹۲۰، ط: علی نفقة صاحب السمو الملکی الأمیر سلطان بن عبد العزیز آل سعود۔ وعنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب في لبس الشہوة، رقم الحدیث: ۴۰۳۱۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :163933
تاریخ اجراء :Oct 4, 2018