کیا علامہ مودودی کو عالم کہا جا سکتا ہے ؟

سوال کا متن:

علامہ مودودی کو عالم کہا جا سکتا ہے ؟ اختلاف امت اور صراط مستقیم مصنف مولانہ محمد یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں مودودی صاحب کی جو جو غلطیاں اور پیغمبروں کی شان میں گستاخی ، صحابہ کی شان میں گستاخی، اہلِ بیعت کی شان میں گستاخی کرنے کے باوجود ان کے مطلق گستاخ یا کافر ہونے کا فتوی کیوں نہیں ہے ؟ ان کے عقائد کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ہمارے کچھ دیوبندی دوست ان کو بہت بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ مولانہ محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب پر بھروسہ نہیں ۔ ایک دو فتوی مجھے دیوبند کی ویب سائٹ پر ملے ہیں وہ بھی دیکھائے ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ کس نے فتوی دیئے ہیں۔ حتی کہ ان فتاوے پر بھی یقین نہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان ساری باتوں پر علمی روشنی ڈالیں۔ اور ہمیں مودودی صاحب کی ماننی چاہئے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1004-1016/B= 11/1438
مود ودی صاحب کا مستند عالم نہیں، وہ ایک انگریزی داں اور اردو کے بہترین صاحب قلم آدمی تھے، اسلامی امور کو اپنی عقل سے سوچتے اور لکھتے تھے، قرآن وحدیث کے تابع ہوکر نہیں لکھتے تھے، اس لیے بہت سے عقائد میں اور اسلام کے احکام لکھنے میں بھی راہ حق سے ہٹ گئے، کبھی غیرمقلدوں کے ساتھ ہوگئے اور کبھی کسی کے ساتھ ہوگئے۔ صحابہٴ کرام کو معیار حق نہیں مانا، انبیائے کرام کی شان میں ایسی باتیں لکھیں جس سے ان کی شان میں گستاخی ظاہر ہوتی ہے، کہیں لکھ دیا کہ کافروں کو زکاة دینا جائز ہے، کہیں لکھ دیا کہ سحری کا وقت ختم ہوجانے کے بعد بھی سحری کھانا جائز ہے، غرض آزاد مزاج تھے۔ ہمیشہ قرآن وحدیث کو اپنی عقل کے تابع بنایا خود اپنے آپ کو قرآن وحدیث کے تابع نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہی کے گڈھے میں گرے، رہ گیا کفر کا فتوی لگانا، تو چونکہ ان کی تحریرات میں دوسرے احتمالات بھی نکلتے ہیں اس لیے علماء نے ان پر کفر کا صریح فتوی نہیں لگایا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :152075
تاریخ اجراء :Jul 31, 2017