(۱) مدرسہ کی کمیٹی نے سڑک میں ایک سوک پٹ (بیت الخلاء )بنایا ہے، سڑک کالونی کی ہے، سرکاری مد سے بنی ہوئی ہے اور مدرسہ کے گیٹ پر ختم ہوتی ہے، کالونی میں مسلم و غیر مسلم دونوں آبادی ہے، پڑوسی مسلم نے اصرار کے بعد اجازت دی اور

سوال کا متن:

(۱) مدرسہ کی کمیٹی نے سڑک میں ایک سوک پٹ (بیت الخلاء )بنایا ہے، سڑک کالونی کی ہے، سرکاری مد سے بنی ہوئی ہے اور مدرسہ کے گیٹ پر ختم ہوتی ہے، کالونی میں مسلم و غیر مسلم دونوں آبادی ہے، پڑوسی مسلم نے اصرار کے بعد اجازت دی اور ہندو پڑوسی مصلحتاً خاموش ہوگئے، مدرسہ میں کھلا صحن ہے، بتانے پر صدر کمیٹی جو غیر مشر ع ہے ، اپنے حواریوں کے ساتھ جھگڑے پر آمادہ ہوا اور مدرسہ کے ذمہ داروں نے خاموشی سے ساتھ دیا، قانونی اعتبار سے یہ سب غیر قانونی ہے، ان حالات میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 100-66/Sn=2/1436-U
صورت مسئولہ میں اگر سڑک (جو ہندو مسلم سب کے لیے مشترک ہے) پر بیت الخلاء بنانے پر لوگوں کو اعتراض ہے تو ذمے دارانِ مدرسہ پر شرعاً زم ہے کہ وہ ”بیت الخلاء“ عام سڑک سے ہٹالیں وإذا أراد الرجل إحداث ظلة في طریق العامة ولا یضر بالعامة فالصحیح من مذھب أبي حنیفة - رحمہ اللہ تعالی - أن لکل واحد من آحاد المسلمین حق المنع وحق الطرح وقال محمد - رحمہ اللہ تعالی - لہ حق المنع ولا حق الطرح الخ (الفتاوی الہندیة: ۵/۳۷۰، الباب التاسع والعشرون، ط: زکریا) وفیہا إذا أراد أن یبني کنیفا أو ظلة علی طریق العامة فإنی أمنعہ عن ذلک وإن بنی ثم اختصموا نظرت في ذلک فإن کان فیہ ضرر أمرتہ أن یقلع وإن لم یکن فیہ ضرر ترکتہ علی حالہ (حوالہٴ بالا ص: ۳۷۱)
(۲) مدرسہ میں کھلا صحن ہے الخ سے آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، واضح نہیں ہے، کھلا صحن سے لوگوں کو کیا پریشانی ہوتی ہے؟ ذمے دارانِ مدرسہ کیوں لڑائی جھگڑا پر آمادہ ہیں، مکمل وضاحت کے بعد ہی اسکا جواب لکھا جاسکتا ہے، باقی یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان خصوصاً دینی درسگاہوں کے ذمے داران اور طلبہ کو معاشرے میں اس طرح رہن سہن اختیار کرنا چاہیے جس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، ان کا طرز عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو، تاکہ دوسروں کے لیے وہ نمونہ بنے اور لوگ ان کا طرز عمل دیکھ کر اسلام اور اہل اسلام سے قریب ہوں نہ کہ ان سے متنفر اور دور ہوں۔ حدیث میں ہے: واللہ لا یوٴمن واللہ لا یوٴمن، قیل: من یا رسول اللہ! قال: الذي لا یأمن جارہ بوائقہ (متفق علیہ) في مرقاة المفاتیح: (بوائقہ) جمع بائقة بالہمز، وہي الداہیة أي غوائلہ وشرروہ علی ما في النہایة، وذلک لأن کمال الإیمان ہو العمل بالقرآن، ومن جملتہ قولہ تعالی: الجار ذي القربی والجار الجنب (باب: الشفقة والرحمة علی الخلق ۷/۳۱۰۹، ط: بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :56759
تاریخ اجراء :Dec 4, 2014