قضا نماز میں صرف فرائض وواجبات پر اکتفاء کرنا؟

سوال کا متن:

میرا نام محمّد احسان ہے ،میری پچھلی تمام نمازیں جو چھوٹ چکی ہیں اور ان کو میں ادا کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے کسی سے دریافت کیا کہ میں آسانی سے رہ جانے والی نمازیں کیسے ادا کر سکتا ہوں تو مجھے پتہ چلا کہ قضا پچھلی نمازیں درج ذیل تخفیف طریقے سے ادا کی جا سکتی ہیں جو کہ طریقہ یہ ہے مجھے پتہ کرنا ہے واقعی اس طریقے سے قضا نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں؟ اگر چار رکعت نماز شرو ع کریں تو اس اللّہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں پھر سیدھا الحمدللہ اور کوئی سوررت پڑھ کے رکوع میں جائیں اور ایک بار تسبیح پڑھ لیں پھر اسی طرح دوسری رکعت اور تیسری رکعت اور چوتھی رکعت میں صرف تین تین بار سبحان اللّہ کہہ لیں پھر رکو اور سجدے میں ایک ایک بار تسبیح پڑھنی ہے پھر چوتھی رکعت کے بعدتاحیات پوری پڑھ لیں اس کے بعد صرف اللھمّ صلی اللہ اعلی محمّد پڑھ کر سلام پھیر دیں نماز قضا ہو جائے گی۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ ایسے نماز ہوجائے گی یا نہیں ہوگی ؟ برائے مہربانی سر بمہر بتا دیں اللّہ اس ادارے کو چمکتا دمکتا رکھے ،آمین۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1243-115T/L=10/1439
قضاء عمری پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس کے ذمہ بہت سی نمازیں قضا ہوں اسے چاہیے کہ وہ اس طرح نیت کرے کہ میں مثلاً قضاء شدہ ظہر کی نمازوں میں اول یا آخری نماز پڑھ رہا ہوں البتہ جہاں تک ثناء، تسبیحات اور درود وغیرہ میں تخفیف کا مسئلہ ہے تو بہتر اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ ان کو بھی سنت کے مطابق ادا کیا جائے لیکن اگر کسی نے ان کو ترک کردیا تو نماز تو ہوجائے گی لیکن خلافِ سنت ہوگی کیونکہ تین تسبیحات کی مقدار ٹھہرنا سنت موٴکدہ ہے سوال کے اندر ذکر کردہ طریقہ پر نماز ادا کرنے سے اگرچہ نماز ادا ہوجائے گی لیکن بہتر یہی ہے کہ سنت کے مطابق قضاء نماز ادا کی جائے محض ایک آدھ منٹ کی خاطر نماز اس طرح پڑھنا کسی طرح مناسب نہیں، نماز سکون اور اطمینان سے پڑھنی چاہیے نماز اس طرح پڑھنا کہ نہ رکوع صحیح سے ادا ہو اور نہ سجدہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور اس کو منافق کی نماز کہا گیا ہے لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے
ولو نوی أول ظہر علیہ أو آخرہ جاز وہذا ہو الممخلص لمن لم یعرف أوقات الفاتة أو اشتبہت علیہ أو أراد التسہیل علی نفسہ․ (الأشباہ: ج۱ص۶۰)
واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فإنہا سنة علی الظاہر، ولو زاد لا بأس بہ وہو مخیر بین قراء ة الفاتحة وصحح العینی وجوبہا وتسبیح ثلاثا وسکوت قدرہا، وفی النہایة قدر تسبیحة، فلا یکون مسیئا بالسکوت علی المذہب لثبوت التخییر عن علی وابن مسعود (رد المحتار: ج۲ص۲۲۱، ط: زکریا دیوبند) ترک السنة لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إسائة لو عامدا غیر مستخف وقالوا الإساء ة أدون من الکراہة، ثم ہی علی ما ذکرہ ثلاثة وعشرون (رد المحتار: ج۲ص۱۷۰: ط: زکریا دیوبند) في واجبات الصلاة من العلائیة وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحة في الرکوع والسجود وکذا في الرفع منہا الخ (رد المحتار: ج۱ص: ۴۳۲) فالأول فیہا ثلاث مرات والأوسط خمس مرات والأکمل سبع مرات کذا في الزاد وإن کان إماما لا یزید علی وجہ یمل القوم کذا في الہدایة (فتاوی ہندیہ: ج۱ص: ۷۵، ط: سعیدیہ)
أنس بن مالک قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول: تلک صلاة المنافق، یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرنی الشیطان، قام فنقرہا أربعا، لا یذکر اللہ فیہا إلا قلیلا (مسلم شریف: ج۱ص:۲۲۵، ط: اتحاد دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :161952
تاریخ اجراء :Jul 2, 2018