شوہر کی خوشی کی خاطر، کیا بیوی اپنی انگلی ، کلائی، ہاتھ ، ٹانگ اور ران کے بال صاف کرسکتے ہیں؟

سوال کا متن:

(۱) شوہر کی خوشی کی خاطر، کیا بیوی اپنی انگلی ، کلائی، ہاتھ ، ٹانگ اور ران کے بال صاف کرسکتے ہیں؟
(۲) کیا ہیئر ریمول کریم یا دوسری دوائی یا بلیڈ سے بال صاف کئے جاسکتے ہیں ؟
(۳) نیز کیابغل اور پیٹ کے بال بلیڈ سے صاف کئے جاسکتے ہیں؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 149-149/Sd=3/1436-U
(۱) اگر کسی عورت کے مذکورہ اعضاء پر غیرفطری زیادہ بال آجائیں جس سے شوہر کو طبعی ناگواری ہو، تو عورت کے لیے ان اعضاء سے بال صاف کرنا جائز ہے؛ لیکن بلاضرورت مذکورہ اعضاء کے بال صاف کرنا خلاف ادب ہے: قال ابن عابدین: وفي حلق شعر الصدر والظھر ترک الأدب (رد المحتار، الحظر والإباحة، باب الاستبراء) وقال ابن عابدین: ”والنامصة“ ․․․ ولعلہ محمول علی ما إذا فعلتہ لتتزین للأجانب، وإلا فلو کان في وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ، ففي تحریم إزالتہ بعد، لأن الزینة للنساء مطلوبة للتحسین، إلا أن یحمل علی ما لا ضرورة إلیہ لما في نتفہ بالمنصاص من الإیذاء․ الخ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة فصل في النظر والمسّ) وکذا في: فتاوی محمودیہ: ۲۷/ ۴۷۲، زکریا، احسن الفتاوی: ۸/ ۷۵-۷۶)
(۲-۳) عورت کے لیے زیرِ ناف بالوں کا اکھاڑنا اور مرد کے لیے بلیڈ یا استرے سے مونڈنا مسنون ہے، جب کہ بغل کے بالوں میں دونوں کے لیے اکھاڑنا بہتر ہے؛ لیکن اگر عورت کو زیر ناف اور بغل کے بال کھاڑنے میں تکلیف ہو، تو اس کے لیے بلیڈ یا استرہ استعمال کرنے سے بہتر کریم، پاوٴڈر وغیرہ سے بال صاف کرنا ہے اور مرد کو اگر بغل کے بال اکھاڑنے میں تکلیف ہو تو اسکے لیے بلیڈ استعمال کرنا جائز ہے، اورنفس سنت مطلقا بال صاف کرنے سے حاصل ہوجائے گی چاہے کسی بھی طرح بال صاف کیے جائیں۔ (قال الطحطاوي: والسنة في حلق العانة أن یکون بالموسی لأنہ یقوي وأصل السنة یتأدی بکل مزیل لحصول المقصود وھو النظافة وقال النووي الأولی في حقہ الحلق وفي حقھا النتف والإبط أولی فیہ النتف لورود الخبر․ (حاشیة الطحطاوي علی المراقي، ص: ۵۲۷، کتاب الصلاة، باب الجمعة، ط: دار الکتاب) وقال ابن عابدین: والسنة في عانة المرأة النتف- وقال قبیلہ عن الہندیة: ولو عالج بالنورة، یجوز․ (رد المحتار: ۹/ ۵۸۳، کتاب الحظر والإباحة، باب الستبراء وغیرہ، ط: زکریا) وکذا في فتاوی محمودیہ: ۲۷/ ۴۳۵، ۴۴۲، ط: زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :56417
تاریخ اجراء :Jan 8, 2015