فرض ، واجب، سنت اور نفل وغیرہ کی نیت کس طرح کرنی چاہیے؟

سوال کا متن:

(۱) حضرت مفتی صاحب! فرض ، واجب، سنت اور نفل وغیرہ کی نیت کس طرح کرنی ہے، زبان سے کرنی ہے یا دل سے؟
(۲) جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو کوئی شخص اسی وقت کی نماز کو پڑھنے کے ارادے سے نکلتا ہے تو کیا الگ نیت کرنا ضروری ہے؟
(۳) قضا نماز کو عصر کی نماز کے بعد سے کتنی دیر پہلے پڑھ سکتے ہیں؟
(۴) قضا نماز کو فرض کی نماز کے بعد سے کتنی دیر پہلے پڑھ سکتے ہیں؟
نوٹ: پہلے نمبر کے سوال کو تفصیل سے بتائیں تاکہ دوبارہ سوال کا موقع نہ لگے۔ جزاک اللہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:156-8T/B=2/1439
( ۱) نیت نام ہے دل کے ارادے کا، اس لیے دل سے نیت کرنا ہی اصل ہے اور دل کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لینا بہتر ہے: النیة بالإجماع وہي الإرادة․․․ والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادة فلا عبرة للذکر باللسان․․ والتلفظ عند الإرادة بہا مستحب وقیل سنة (الدر المختار ص: ۹۰ ، تا ۹۲/ ط: زکریا دیوبند)
( ۲) اگر وہ شخص اسی وقت کی نماز کے ارادے سے چلے اور تکبیر تحریمہ تک کھانے، پینے بات چیت یا دیگر دنیوی مشاغل میں مبتلا نہ ہو تو یہی نیت کافی ہوگی الگ سے نیت کرنا ضروری نہیں: وجاز تقدیمہا (النیة) علی التکبیر․ الدر المختار ․․․․ وفي البحر: المراد بہ الفاصل الأجنبي وہو ما لا یلیق بالصلاة کالأکل والشرب والکلام لأن ہذہ الأفعال تبطل الصلاة فتبطل النیة، وأما المشي والوضوء فلیس اجنبیا (رد المحتار مع الدر ۲/۹۳ ، زکریا دیوبند)
( ۳،۴) تین اوقات: طلوعِ شمس، استواء شمس اورغروب شمس کے علاوہ ہروقت قضاء نماز پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ تنہائی میں قضا نماز پڑھے تاکہ لوگوں کو گناہ کی اطلاع نہ ہو وکرہ تحریمًا وکل ما لا یجوز مکروہ صلاة مطلقا ولو قضاءً أو واجبة أو نفلاً مع شروق واستواء وغروب (الدر المختار: ۲/ ۲۰ تا ۳۲ ، زکریا دیوبند) یلا یکرہ قضاء فائتة ولو وترًا بعد طلوع الفجر (الدر المختار: ۲/ ۳۷ زکریا) واعلم أن الأوقات المکروہة نوعان: ․․․ والثانی ما بین الفجر والشمس وما بین صلاة العصر إلی الإصفرار․․․ والنوع الثاني ینعقد فیہ جمیع الصلوات التي ذکرنا معا من غیر کراہة إلا النفل والواجب لغیرہ فإنہ ینعقد مع الکراہة (شامي: ۲/ ۳۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :155633
تاریخ اجراء :Nov 19, 2017