خرید و فروخت میں شریعت کے مطابق كس حد تك نفع لیا جاسكتا ہے؟

سوال کا متن:

خرید و فروخت میں شریعت کے مطابق ناجائز منافع کی کیا حد ہے ؟ مثلاً ۱۰۰ روپے کی چیز کتنے روپے میں فروخت کرنے پر کمایا جانے والا منافع ناجائز کہلائے گا؟اگر ۱۰۰ روپے کی چیز کو خرید کر اتنا طویل عرصہ پاس رکھا جائے کہ اس کی قدر بڑھ کر ۲۰۰ ہو گئی ہو تو اب اس کو فروخت کر کے اس پر ناجائز منافع کمانے کی حد کیا ہوگی؟ یعنی اب اس کو کم از کم کتنی قیمت میں فروخت کیا جائے کہ اس پر لیا جانے والا منافع ناجائز ہو گا؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:888-888L=8/1440
شریعتِ مطہرہ نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کو بازار کے اتار چڑھاؤ پر چھوڑدیا ؛البتہ جھوٹ دھوکہ دہی سے بچنے کی ترغیب دی ہے ؛لہذا عاقدین اگر جھوٹ ودھوکہ دہی سے بچتے ہوئے باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر معاملہ کرلیں تو اس کی گنجائش ہوگی خواہ اس میں کتنا ہی نفع ہو ؛البتہ اس قدر نفع لینے کو فقہاء نے نامناسب اور خلافِ مروت کہا ہے جو غبنِ فاحش کے دائرے میں آتا ہو اور غبن فاحش یہ ہے کہ بازار میں جو زائد سے زائد قیمت چل رہی ہو اس سے زائد نفع لیا جائے، اسی کو فقہاء نے ”مالایدخل تحت تقویم المقومین“سے تعبیر کیا ہے ،یعنی ایک چیز کی قیمت کا اندازہ کئی لوگ لگائیں اور کسی کا تخمینہ اس حد تک نہ پہنچے،اور سوال میں مذکور صورت میں اگر بوقتِ خرید کسی چیز کی قیمت سوروپے ہو ؛لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے اس کی مالیت دو سو ہوگئی ہو تو دوسو میں فروخت کرنے کی گنجائش ہوگی ،اس صورت میں دوسو میں فروخت کرنا غبن فاحش نہ ہوگا ۔
 عن أنس رضی اللہ عنہ قال: غلا السعر علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا: یا رسول اللہ! قد غلا السعر فسعّر لنا، فقال: إن اللہ ہو المسعّر القابض الباسط الرّازق․ (ابن ماجة: ص۱۵۹)وفی رد المحتار:إن مالا یدخل تحت تقویم المقومین فاحش.(ردالمحتار:۷/۲۳۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :169943
تاریخ اجراء :May 13, 2019