مضاربت کی ایک شکل کی تحقیق

سوال کا متن:

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں ایک کپڑا بازار میں نقد 100 روپئے کا ملتا ہے اور ادھار 140 کا، "الف" ب کو وہ کپڑے نقد 100 روپئے میں خرید کر ادھار 140 روپئے میں فروخت کرتا ہے ، ج نے "الف" کو دس ہزار روپئے دئے اور کہا کہ جو مال آپ ب کو بیچتے ہیں وہ اس دس ہزار روپئے سے خرید کر 140 کے حساب سے ب کو ادھار میں فروخت کر دو اور 40 روپئے کے حساب سے جو نفع بنتا ہے اس کا 75 فیصد جس کی رقم فلاں بنتی ہے میراہے ، باقی 25فیصد جس کی رقم فلاں بنتی ہے وہ آپ کا، اس طرح دس ہزارکے مال پر 4000 کا نفع بنتا ہے جس میں سے 75 فیصد یعنی 3000 ج کا بنا اور 1000 "الف" کا. اب "الف" دس ہزار راس المال اور 3000 رب المال کا نفع ملا کر تیرہ ہزار کی متعینہ تاریخ کی ب سے چک بنوا کر رب المال کو دے دیتا ہے ، اور ایک ہزار اپنے نفع کی چک بنوا کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے ،اور چک کی تاریخ آنے پر چک کی رقم نکال لیتا ہے . کیا اس طرح کا معاملہ کرنا درست ہے ؟ بینوا توجروا

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 609-567/H=06/1440
یہ مضاربت کی صورت ہے الف اور ج کے مابین جو نفع کی تقسیم ہے وہ بھی درست ہے پس یہ معاملہ جائز ہے اور تاریخ متعینہ پر بذریعہ چیک رأس المال اور نفع کی ادائیگی ہو جائے اِس کی بھی گنجائش ہے شرعاً اِس میں کچھ قباحت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168412
تاریخ اجراء :Feb 18, 2019