مضاربت کی ایک شکل کا حکم

سوال کا متن:

میں ایک بزنس میں مضاربت کرنا چاہتا ہوں 1 شخص کے ساتھ برائے مہربانی انویسٹمینٹ کا طریقہ پڑہہ کر بتا ئیں کہ یہ جائز ہے یا نا جائز؟
انویسٹمنٹ کا طریقہ کار؛ طریقہ کار یہ ہے کہ جس شخص کہ ساتھ میں مضاربت کر رہاہوں اس کا گہی کا کاروبار ہے جس میں پیسے میں لگاوں گا کام وہ کرینگے کیوں کہ فیکٹری،لیبر،مشینری ان کی ہے ، اور منافع مجہے بہی اتنا ملے گا جتنی ایک گہی کہ کنستر کی قیمت ہے ، مثال کہ طور پر میں نے 250 روپے انویسٹ کیا اب اس 250 سے وہ 4 گہی کہ کنستر تیار کرے گا اور ہول سیل مارکیٹ میں 1 کنستر کی قیمت 500 کی رکہی ہے جس میں سے 1 میرے نام پر ہو گا مجہے شروع کے پہلے مہینے کچھ نہیں ملے گا دوسرے مہینے سے مجہے منا فع ملے گا لیکن 1ساتھ نہیں، یہ ہمارے درمیان طے ہوا ہے کہ منا فع 8 ہفتوں میں تقسیم ہو جائے گا یعنی ہر ہفتے 62 روپے ملے گے اور 4 ہفتوں کے بعد میں اپنے 250 روپے جو میں نے لگا ئے وہ لے چکا ہوگا،4 ہفتوں بعد وہ مجہے کہتے ہیں کہ یا تو تم اپنا گہی کا کنستر خود سیل کرلو یا پہر ان کو اختیار دے دو کہ وہ اپنے کنستر کہ ساتھ میرا بہی سیل کر دیں۔اور اسی طریقے سے اگلے 4 ہفتے 62 روپے ہفتہ منا فع لیتا رہوں، اور ایسا وہ اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے میری انوسٹمنٹ سے 1 نہیں بلکہ4 گہی کہ کنستر تیار کیا ہے جس میں سے ایک میرا ہے جس کے اوپر مجہے نفع دیا جا رہا ہے تو کیا اس کاروبار میں پیسہ لگانا جائزہے ؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1077-263T/SN=1/1440
مضاربت کا شرعی اصول یہ ہے کہ مال مضاربت سے کاروبار کے دوران جو کچھ بھی منافع حاصل ہوں وہ فریقین (رب المال اور مضارب) کے درمیان حصہ فیصدی (مثلاً آدھا ، آدھا یا دو تہائی اور ایک تہائی) کے طور پر تقسیم ہوگا، اگر نقصان ہو جائے تو اوّلاً اس کی تلافی منافع سے کی جائے گی، اگر منافع سے تلافی نہ ہو تو مال مضاربت سے اس کی تلافی کی جائے گی، ایسی صورت میں رب المال کا مال جائے گا اور مضارب کی محنت، اگر منافع حصہٴ مشاع کے طور پر طے نہ ہو؛ بلکہ مقدار میں متعین ہو یا اصل مال (مضارب کا سرمایہ) محفوظ رہنے کی شرط ہو تو شرعاً اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، سوال میں جو طریقہٴ کار مضاربت کا ذکر کیا گیا ہے و ہ مذکورہ بالا اصول کے مطابق نہیں ہے؛ اس لئے یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ اگر اس شخص کے ساتھ کاروبار کرنا ہی ہو تو کسی اچھے اور معتبر مفتی کے ساتھ بیٹھ کر شرعی اصول کے مطابق طریقہٴ کار طے کر لیا جائے۔ وشرط تسلیم المال إلی المضارب بلا ید لرب المال فیہ عاقداً کان أو غیر عاقد ․․․․ وکون الربح بینہما مشاعاً ، فتفسد إن شرط لأحدہما عشرة دراہم مثلاً (ملتقی الابحر مع مجمع الأنہر: ۳/۴۴۵) وفیہ (۳/۴۵۸) وماہلک من مال المضاربة صرف إلی الربح أوّلاً ، فإن زاد علی الرّبح لایضمن المضاب الخ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :162456
تاریخ اجراء :Oct 4, 2018