سوال کا متن:
حضرت مفتی صاحب ،کیا وکیل بالبیع کیلے مبیعہ موکل کے بتائی ہوئی رقم سے زیادہ قیمت میں فروخت کرنا اور وہ زیادہ رقم اپنے پاس رکھنا کیسا ہے جبکہ موکل کو علم نہ ہو؟
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1486-1366/L=1/1440
وکیل بالبیع کے لئے موکل کے بتائی ہوئی رقم سے زائد قیمت میں بیچنا جائز ہے البتہ اس زائد رقم کا مالک موکل ہے نہ کہ وکیل اس لئے وکیل کے لئے اس زائد رقم کو رکھنا جائز نہیں ہے۔ (مستفاد: امداد الاحکام: ۱۴۴، کتاب الوکالة)
فرع: الوکیل إذا خالف، إن خلافا إلی خیر في الجنس کبیع بألف درہم فباعہ بألف ومأة نفذ (وفي الشامی) قال في الہامش: وکلہ أن یبیع عبدہ بألف وقیمتہ کذلک ثم زاد قیمتہ إلی ألفین لا یملک بیعہ بألف بزازیة(شامی: ۸/۲۵۷، کتاب الوکالة، ط: زکریا) الوکیل بالبیع یجوز بیعہ ․․․․․․ بالکثیر ․․․․․․ عند أبي حنیفة -رحمہ اللہ تعالی- ہندیة: ۳/۴۹۹، کتاب الوکالة، ط: اتحاد دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa : 1486-1366/L=1/1440
وکیل بالبیع کے لئے موکل کے بتائی ہوئی رقم سے زائد قیمت میں بیچنا جائز ہے البتہ اس زائد رقم کا مالک موکل ہے نہ کہ وکیل اس لئے وکیل کے لئے اس زائد رقم کو رکھنا جائز نہیں ہے۔ (مستفاد: امداد الاحکام: ۱۴۴، کتاب الوکالة)
فرع: الوکیل إذا خالف، إن خلافا إلی خیر في الجنس کبیع بألف درہم فباعہ بألف ومأة نفذ (وفي الشامی) قال في الہامش: وکلہ أن یبیع عبدہ بألف وقیمتہ کذلک ثم زاد قیمتہ إلی ألفین لا یملک بیعہ بألف بزازیة(شامی: ۸/۲۵۷، کتاب الوکالة، ط: زکریا) الوکیل بالبیع یجوز بیعہ ․․․․․․ بالکثیر ․․․․․․ عند أبي حنیفة -رحمہ اللہ تعالی- ہندیة: ۳/۴۹۹، کتاب الوکالة، ط: اتحاد دیوبند۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند