کیا وتر نماز میں دعا قنوت پڑھنا ضروری ہے؟یا کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں ؟

سوال کا متن:

(۱) نماز کی پہلی رکعت میں سور ة فاتحہ اور سورة اخلاص کے ساتھ کونسی سورة پڑھنی چاہئے؟
(۲) میں نماز میں عام طورپر پہلی رکعت میں سورة اخلاص پڑھتاہوں اور کوئی سورة شامل نہیں کرتا تو کیا یہ غلط ہے؟
(۳) کیا وتر نماز میں دعا قنوت پڑھنا ضروری ہے؟یا کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں جو آتی ہو؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 768-766/N=8/1437
(۱) اگر آپ نے کسی نماز کی پہلی یا دوسری یا کسی اور رکعت میں سورہٴ فاتحہ کے ساتھ سورہٴ ا خلاص پڑھی تو ضم سورہ کا واجب ادا ہوگیا، اب سورہ اخلاص کے ساتھ کوئی اور سورت ملانے کی ضرورت نہیں، وضم أقصر سورة کالکوثر أو ما قام مقامہا إلخ (درمختار مع شامی، ۲: ۱۴۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) اور سورہٴ فلق، سورہٴ ا خلاص کی بنسبت بہت زیادہ بڑی سورت نہیں ہے اس میں صرف ایک آیت زائد ہے: اس لیے دوسری رکعت میں سورہٴ فلق پڑھنے میں کوئی کراہت نہ ہوگی۔
(۲) اگر آپ سورہٴ فاتحہ پڑھ کر سورہٴ ا خلاص پڑھتے ہیں توسورہ اخلاص کے بعد کوئی اور سورت پڑھنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں بھی تحریر کیا گیا، البتہ پہلی رکعت میں ہمیشہ سورہٴ اخلاص ہی نہ پڑھی جائے؛ بلکہ دوسری سورتیں بھی پڑھنی چاہیے، البتہ اگر اس میں کوئی ذاتی مصلحت ہو اور آدمی انفرادی نماز میں ایسا کرے تو کچھ حرج نہیں۔ أما علی ما علل بہ المشائخ من ہجر الباقي فلا فرق في کراہة المداومة بین المنفرد والإمام والسنة والفرض فتکرہ المداومة مطلقًا إلخ (شامی، ۲: ۶۲۵، ۲۲۶)۔
(۳) نماز وتر میں مشہور دعائے قنوت کا پڑھنا سنت ہے، البتہ اگر کسی کو یہ دعا یا د نہ ہو تو وہ دوسری کوئی بھی دعا پڑھ سکتا ہے، اور بلاوجہ مسنون دعا ترک نہ کرنی چاہیے، قولہ: ”وہو مطلق الدعاء“ أي: القنوت والواجب یحصل بأی دعاء کان کما في النہر، وأما خصوص ”اللہم إنا نستعینک“ فسنة فقط حتی لو أتی بغیرہ جاز إجماعاً (شامي: ۲/ ۱۶۳) ویسنّ الدعاء المشہور (درمختار مع شامی: ۲/ ۴۴۲)، ومن لا یحسن القنوت یقول: ”ربنا آتنا في الدنیا حسنة“ الآیة․ وقال أبو اللیث: یقول: اللہم اغفرلي یکررہا ثلاثا، وقیل: یقول: یا ربّ ثلاثا، ذکرہ في الذخیرة (شامي: ۲/ ۴۴۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :64122
تاریخ اجراء :May 17, 2016