کیا اسلام میں شیئر کی خریدو فروخت یا شیئر بازار میں پیسہ لگانا جائز ہے؟ کیا یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے؟

سوال کا متن:

کیا اسلام میں شیئر کی خریدو فروخت یا شیئر بازار میں پیسہ لگانا جائز ہے؟ کیا یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1364=1279/ د
 
شیئر کی خریداری چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
(ا) جس کمپنی کا شیئر خریدنا ہے وہ ایسے بینک کا جو سودی کاروبار کرتا ہو، شیئر نہ ہو، انشورنس کمپنی یا کسی حرام سامان تیار کرنے والی کمپنی یا شراب کی کمپنی نہ ہو۔
(ب) ابتدائی مرحلہ میں کمپنی نے اپنا کچھ منجمد اثاثہ بنالیا ہو، کمپنی کا کل سرمایہ نقد کی شکل میں نہ ہو ورنہ ایسی کمپنی کا شیئر اصل ویلو سے زائد یا کم پر خریدنا جائز نہ ہوگا۔
(ج) دوران کاروبار کمپنی نے اگر سودی لین دین تھوڑا بہت کیا ہو تو اس سے اپنی عدم رضامندی کا اظہار کرنا خواہ اس کی سالانہ میٹنگ میں یا کسی اور طریقہ پر۔
(د) اگر کچھ سودی لین دین کیا ہو تو اس پر جو نفع حاصل ہوا ہو، ملنے والے نفع میں سے اسی تناسب سے رقم صدقہ کردینا۔
(ھ) شیئر خریدنے سے مقصود کمپنی میں حصہ داری اور سرمایہ کاری ہو شیئر پر قبضہ حاصل کیے بغیر فروخت کردینا اور ڈفرنس برابر کرلینا سٹہ کی شکل ہے جو ناجائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :6900
تاریخ اجراء :Aug 27, 2008