گھر لیز پر لینا سود میں شمار ہوگا کیا؟

سوال کا متن:

اگر دو لاکھ روپئے دیکر گھرکو ماہانہ سو(100) روپئے پر کرایہ پر لیں گے تو کیا یہ سود میں شمار ہوگا؟ جبکہ اگر دو لاکھ روپئے کے بجائے بیس ہزار روپئے پیشگی دیں گے تو پانچ ہزار روپئے کرایہ ہوگا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 664-681/SN=08/1440
پیشگی رقم دے کر متعارف کرائے سے کم پر گھر وغیرہ لینا قرض سے انتفاع کی شکل ہے جو بحکم سود ہے؛ اس لئے سوال میں مذکور پہلی صورت تو بلاشبہ ناجائز ہے، رہی دوسری صورت تو پانچ ہزار روپئے اگر متعارف کرایہ ہے تب تو اس میں کوئی حرج نہیں، اگر متعارف سے کم ہے اور یہ کمی پیشگی رقم دینے کی وجہ سے کی گئی ہے تو یہ صورت بھی قرض سے انتفاع میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے۔ کل قرض جر منفعةً فہو ربا (مصنف بن أبي شیبہ ، رقم: ۲۰۶۹۰) ۔
نوٹ: دوسری صورت میں دو لاکھ روپئے اگر ڈپازٹ نہ ہو؛ بلکہ پیشگی اجرت ہو جو بعد میں واپس نہ ملے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔
----------------------------
جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ ڈپازٹ کی رقم صرف مجبوری میں دی جائے کہ اس کے بغیر مکان کرایہ پر نہ ملے۔ (ن)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :169341
تاریخ اجراء :May 2, 2019