خواتین اور بچوں میں موبائل فون کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے نقصانات

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہمارے علمائے کرام اور مفتیان عظام اس بارے میں کہ آجکل سخت فتنہ کا دور ہے اور شریف دیندار خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیاں بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں یہاں تک کہ کئی کئی سال کی شادی شدہ کئی بچوں والی عورتیں بہہی انٹرنیٹ ، فیس بک اور یو ٹیوب کے استعمال سے زناکاری کا شکار ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں، ایسے وقت میں خواتین کو انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کا بغیر کسی نگرانی کے استعمال کرنے دینا کیسا ہے ؟ جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے اور قرائن و شواہد سے سامنے آچکی ہے کہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کا خواتین کا آزادانہ استعمال انکے بازار میں اکیلے جانے سے زیادہ پر فتن اور گویا انکو قحبہ خانوں تک بلا روک ٹوک پہچانے کا ایک آسان ذریعہ کسی وقت بن سکتا ہے جبکہ اس قسم کے شکاری انٹرنیٹ پر انہی شکار کیلیے تیار بیٹہے ہوتے ہیں جبکہ بعض حالات میں یہ خواتین/ بیویاں یا بچے انٹرنیٹ سے ہسٹری حذف کرکے مسلسل اپنے ناجائز رابطوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے اور انکے سرپرست اندہیرے میں رہتے ہیں یہاں تک کہ بات آگے بڑہہ جاتی ہے اور خاندان تباہ ہوتے ہیں. ان حالات میں خواتین کے شوہر اور بچوں کے والدین پر شریعت کی رو سے کس چیز کے پابند ہیں؟ کیا انکو اسمارٹ فون دینا جائز ہوگا؟ کیا انکا بغیر نگرانی کے انٹرنیٹ استعمال کرنے دینا جائز ہوگا؟ کیا خواتین کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بلا اجازت و نگرانی کے استعمال کیلیے شوہروں پر زور ڈالنا صحیح ہے ؟ کیا ایسی بیوی سے بستر علیحدہ کرلینا قرآن وسنت کی رو سے صحیح ہے ؟ اور پہر بہی باز نہ آئے تو کیا حکم ہے ؟ ان حالات میں اگر شوہر انکو فتنوں سے بچانے کی خاطر ایسا کرے اور بیویاں / خواتین یا دوسرے لوگ اسکو شوہر کے ظلم سے یا سختی سے تعبیر کرے تو ایسا کہنا کیسا ہے ؟ کیا وقرن فی بیوتکن کی آیت کی یہ کہلی خلاف ورزہی نہیں ہے ؟ کیا حدیث شریف کی رو سے دیوث شوہر کی یہی پہچان ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون اپنی بیوی کو دیکر بے فکر ہوجائے ؟ اور کیا لوگوں کا شوہر کے اس نگرانی کو سختی سے تعبیر کر نا دیوث والی حدیث شریف کی مخالفت نہیں ہے ؟ براہ مہربانی اس پر فتن دور کے سخت فتنوں سے اس امت کو بچانے کیلیے علمائے کرام زنا اور ولا تقربو الزنا کی شدید وعیدوں سے اور دنیاوآخرت کی سخت ترین سزاوں سے امت کو آگاہ فرمائیں تاکہ خوف حقیقی جسکا مطالبہ ہے اس امت کے لوگوں کو مستحضر رہے اور کیا ان وعیدوں سے ڈرانا اور ہوشیار کرنا اس دور میں جبکہ گہر اور خاندان تباہ ہورہے ہیں ہر ہر جگہ اور مساجد کے علمائے کرام کیلیے واجب نہیں ہے ؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 401-65T/B=05/1440
انٹرنیٹ کا صحیح استعمال بھی ہے اور غلط اور غیرمحتاط استعمال بھی ہے، ضرورت کے وقت صحیح اور محتاط استعمال کی اجازت ہے؛ لیکن غلط اور غیرمحتاط استعمال گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے مفاسد اور نقصانات پر بھی مشتمل ہے؛ اس لئے اپنے بچے بچیوں اور گھر کے افراد کو انٹرنیٹ کے غلط اور غیرمحتاط استعمال کی اجازت دینا ان کو گناہوں کے دلدل میں ڈھکیلنا اور اخلاقی بے راہ روی پر ڈالنا ہے جو کہ درست نہیں اپنے بچے اور بچیوں کو بغیر ضرورت کے اسمارٹ فون سے باز رکھنا چاہئے، اگر بیوی انٹرنیٹ کا غلط استعمال کر رہی ہے تو اس شوہر کا حکم مان کر غلط استعمال چھوڑ دینا چاہئے اور شوہر کے روکنے کو ظلم سے تعبیر کرنا درست نہیں، مرد گھر کا ذمہ دار ہے اسے چاہئے کہ گھر کے افراد کی اچھی تربیت کرے اور گناہوں سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کرے اسی طرح ائمہ مساجد اور علماء کرام کو بھی چاہئے کہ انٹرنیٹ وغیرہ کے غلط استعمال کے مفاسد ونقصانات اور ان کے ذریعے سے پیداہونے والی اخلاقی بے راہ روی کو بیان کریں تاکہ امت کے اندر اس گناہ کے تعلق سے بیداری پیدا ہو اور گناہ سے محفوظ ہوسکے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :167090
تاریخ اجراء :Jan 9, 2019