اگر طلاق ہوجائے تو بچے كی پرورش كا حق كسے ہے؟

سوال کا متن:

مسئلہ یہ ہے کہ میری طلاق ہوچکی ہے، اس کا کسی غیر مرد سے چکر چل رہاتھا، اس وجہ سے میں نے اس کو ایک طلاق دی ہے، اور اس نے قبول کرلیا ہے، میری ایک بیٹی ہے چار سال کی، وہ میری بیوی کے پاس ہے ، میں نے اپنی بیوی سے بات کی رجوع کرنے کے لیے ، لیکن وہ واپس نہیں آنا چاہتی ، میں اپنی بیٹی کا خرچ اس کو بھیجتا رہتاہوں، میری بیوی سے اب کبھی کبھی میری بات ہوتی ہے، میں نے اس سے کہا کہ تم اپنی زندگی سکون سے جیو اور بیٹی مجھے دیدو، وہ کہتی ہے کہ میں جان دیدوں گی اگر بیٹی سے ملنے کے لیے آیا یا اس کو لینے کی کوشش کی، بیٹی سے ٹیلیفون پر بات کروادیتی ہے، مگر ملنے کی اجازت نہیں ہے، بیٹی بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتی یہ میں جانتاہوں۔
سوال یہ ہے کہ میں اس بات سے پریشان ہوں کہ اس کے گھر کا ماحول صحیح نہیں ہے، اس کے گھر میں دوسرے لڑکوں سے چکر چلانا عام بات ہوگئی ہے، ان کے ماں باپ سب کو معلوم ہے یہ سب، جب میں نے اپنی بیٹی کو لینے کے لیے کہا اور اس کے حقوق دینے کے لیے اس کو اللہ کا خوف دلایا تو اس نے مجھ سے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے یہاں وہ ذمہ دار ہے اگر غلط ہو یا صحیح ہو میری بیٹی کے ساتھ، میں آزاد ہوں اپنی بیٹی کے حق سے۔
اب آپ بتائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں، اگر میں اپنی بیٹی سے منہ موڑ لیتا ہوں اور اس کا حق ادا نہیں کرتا ہوں تو جیسا کہ اس کی ماں نے مجھ سے کہا کہ میں آزاد ہوں کسی گناہ سے، تو کیا میں واقعی میں اللہ کے یہاں گناہ گار ہوں گا ؟ مجھے صرف یہی ڈر ہے کہ کہیں جیسے میری بیوی نے اپنے زندگی خراب کی ہے ، میری بیٹی کی بھی زندگی خراب نہ ہو۔
براہ کرم، رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ میں کسی ماں سے اس کی بیٹی کو چھیننا نہیں چاہتا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 683-97T/D=07/1440
بچی کی پرورش کا حق ماں کو بچی کے ۹/ سال کی عمر پہونچ جانے تک رہتا ہے بشرطیکہ ماں نے دوسری شادی بچی کے نامحرم سے نہ کرلی ہو اگر دوسری شادی کرے گی تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا اسی طرح بچی کے ۹/سال کی عمر کو پہونچ جانے پر بھی بچی کا حق حضانت ماں کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ اور باپ کو اختیار اور حق حاصل ہو جاتا ہے کہ بچی کو اپنی پرورش اور تربیت میں رکھے پھر شادی کے لائق ہو جانے پر اس کی شادی کا بندوبست کرے۔ قال فی الدر: والام احق بہا حتی تحیض ․․․․․ وغیرہما احق بہا حتی تشتہی وقدر بتسع وبہ یفتی ․․․․․․․ وعن محمد ان الحکم فی الام والجدة وبہ یفتی لکثرة الفساد ۔ ص:۲۶۸، ۵۸۰۔
اور اگر ماں فجور اور زنا میں مبتلا ہو یا ایسا پیشہ اختیار کئے ہے جس سے بچہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد کی عورتوں کو مثلاً نانی پھر دادی پھر بہن پھر خالہ پھر پھوپھی کو حاصل ہوگا اگر یہ لوگ نہ ہوں یا لینے کو تیار نہ ہوں تو باپ اپنے پاس رکھے اور تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے۔ قال فی الدر: الحضانة تثبت للام ولو کتابیة ․․․․․ الا ان تکون مرتدة او فاجرة فجوراً یضیع الولد بہ کزنا وغناء وسرقة الخ ص: ۲۵۳/۵۔ قال ایضا ثم ام الام ثم ام الاب الخ ص: ۲۶۲/۵۔
آپ کے منہ موڑنے کی وجہ سے اگر لڑکی کی اخلاقی حالت خراب ہوئی تو اس کے ذمہ دار آپ بھی ہوں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :169527
تاریخ اجراء :Mar 26, 2019