میرا سوال یہ ہے کہ یہاں افغانستان میں بڑی تعداد میں بینکوں اور دوسرے این جی اوز نے سود کی دکان کھولی ہے، میں نے دارالافتاء کو رجوع کیا لیکن انھوں نے کہا کہ اگر جامعہ دیوبند اس بارے میں کوئی فتویٰ دیں تو ہم اس فتویٰ کی بنا

سوال کا متن:

میرا سوال یہ ہے کہ یہاں افغانستان میں بڑی تعداد میں بینکوں اور دوسرے این جی اوز نے سود کی دکان کھولی ہے، میں نے دارالافتاء کو رجوع کیا لیکن انھوں نے کہا کہ اگر جامعہ دیوبند اس بارے میں کوئی فتویٰ دیں تو ہم اس فتویٰ کی بنا پر آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ مقصد یہ کہ لاٹری، بینک کا سود اور دوسری قرعہ اندازی جیسی باتیں جو بینک لوگوں سے پیسے رکھتے ہیں اور ان پیسوں کو رکھ کر انہیں کارڈز دیتے ہیں پھر تین مہینے بعد قرعہ اندازی ہوتی ہے اونر قرعہ اندازی میں چند ایک لوگوں کوانعامات دیتے ہیں اور پیسے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ مہربانی ہوگی اگر اس نظام کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں فتویٰ عربی میں دیا جائے تو اچھا ہوگا ورنہ اردو سے بھی کام ہوجائے گا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 417/ د= 412/ د
  بینک میں رقم جمع کرنے کے بعد جمع کردہ رقم سے زاید جو نفع حاصل ہو خواہ سود کے طور پر یا بذریعہ قرعہ اندازی انعام کے طور پر وہ سود ہے اور سود کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ کل قرض جر نفع فھو ربا (الحدیث) ﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (القرآن) إن المنافع التي تزید علی مبلغ النقود المخزونة في البنك فإنھا ربٰو وأخذھا حرام سواء کان باسم الربوٰ أو بطریق الجائزة ․ کل قرض جر نفعا فھو ربٰو (الحدیث) ﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (القرآن)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :1533
تاریخ اجراء :Nov 3, 2007