قیامت میں حق وصول كرنے كے لیے عدالت میں كیس نہ كرنا؟

سوال کا متن:

کیا فرماتے مفتیان کرام جامعہ کہ فضل اللہ ترندی سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک کمپنی مؤسسة منشاف للبصریات میں کام کرتا ہے اب موصوف سعودی عرب سے مکمل طور پر کام چھوڑ کر وطن جانا چاہتا ہے جسے سعودی عرب کی اصطلاح میں نہائی کہتے ہیں۔ سعودی گورنمنٹ نے کمپنیوں پر لازم کی ہے کہ وہ اپنے نوکر کو سالانہ ایک تنخواہ یعنی بارہ کے ساتھ تیرھویں تنخواہ ضرور دی جائے اور ہر نوکر کو یہ اختیار دی ہے کہ اگر مدیر کمپنی کسی نوکر کو یہ حق نہ دے تو وہ مکتب عمل یعنی کورٹ سے رجوع کرلے ۔ جہاں سے وہ اپنا حق لے سکتا ہے ۔ اس قانون کے مطابق میں نے مذکورہ کمپنی میں چھ سال کام کیا اور میری چھ تنخواہیں بنتی ہیں جبکہ مدیر یا مالک کمپنی جناب اجمل شاہ اس بات کی تصدیق بھی کررہے ہیں کہ یہ آپ کا حق بنتا ہے مگر ہم آپ کو یہ نہیں دے سکتے ۔ اب موصوف اپنا حق مانگنے کے لئے کورٹ جانا چاہتا ہے لیکن موصوف دل میں یہ سوچ کر عدالت میں کیس نہیں کرتاکہ میں مذکورہ صاحب سے یہ حق قیامت میں لے لوں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا موصوف کا یہ ردعمل کہ قیامت میں اپنا چھ تنخواہوں کا حق لے لوں گا درست ہے کیا اسے یہ حق روزمحشر میں مل جائے گی یا پھر انہیں کیس کرنی چاہئے؟ معذرت جواب جلد مرحمت فرمائے گا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:885-773/H=7/1439
مقدمہ عدالت میں قائم کرنے کا تو قانونی حق حاصل ہے، اگر مقدمہ کرنے کا ارادہ نہیں تو اعلیٰ بات یہ ہے کہ معاف کردیں، معاف کرنے پر جو اجر وثواب دنیا وآخرت میں ملتا ہے وہ اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جو آخرت میں وصول کرنے پر ملے گا، اگر معاف نہ کیا تو قیامت میں بہرحال ذرہ ذرہ کا حساب کتاب ہونا ہی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :160357
تاریخ اجراء :Apr 18, 2018