عصمت کی حفاظت کے لیے درندہ باپ سے بیٹیوں کا علیحدہ رہنا اور خدمت نہ کرنا؟

سوال کا متن:

میری خالہ کی22 سال پہلے اولاد کے متمنی ایک شخص سے شادی ہوئی۔اس دوران اور جب اولاد ہو گئی (4 بیٹے ( ایک بچپن میں فوت ہو گیا تھا) اور 2 بیٹیاں) تو وہ ساری زندگی اولاد کو ذبح کرنے ،بیوی کو واہیات طعنے ، غلیظ گالیاں، بچیوں کو فروخت/ آوارہ اور بڑی عمر کے لوگوں سے شادی کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ گھر میں کسی قسم کا مالی اور ذہنی سکون نہیں تھا۔ حتی کہ ان کے اپنے بہن بھائی ان سے کنارہ کش رہے لیکن میری خالہ سے اچھے طریقہ سے ملتے رہے اور میری خالہ کو بتاتے کہ یہ انتہائی برا شخص ہے ۔ میری خالہ جو انتہائی بھولی بھالی تھیں انہوں نے یہ تمام صورتحال کسی کو نہیں بتائی اور چپ چاپ آلام کو برداشت کرتی رہیں۔انہوں نے آخر میں اپنی بہن کو بتایا کہ یہ شخص اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ کام کرنے کی مجھے دھمکیاں دیتا رہا ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں ہونے کی پیشن گوئی کی ( باپ کے ہاتھوں بیٹیوں کی عزت کی پامالی) اور میری وفات کے بعد شاید ایسا کر گزرے ۔خالہ کچھ عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو گئیں اور بڑے بیٹے کو وصیت کر گئیں کہ میری بیٹیوں کو اس شخص سے بچا کر علیحدہ رکھنا۔ چھوٹی بیٹی جو ماں کی بیماری کے دوران باپ کے پاس رہی اس نے باپ کا خبیثانہ طرز عمل دیکھ لیا اور وہ اب باپ کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔مگر بڑی بیٹی جو باپ کے پاس الگ نہیں رہی اور بیماری کے دوران والدہ کی خدمت کرتی رہی اسکا خیال ہے کہ جس طرح کا بھی باپ ہو اس کی خدمت لازم ہے ورنہ وہ گناہگار ہو گی اور آخرت میں پکڑ ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ یہ شخص جو گالیاں دے دے کر حدیث کی رو سے فاسق ہے ،جس سے بچیوں کی عزت اور اولاد کی جان کو خطرہ ہے اور لڑکیوں زندگی اور آخرت برباد کر سکتا ہے :کیا لڑکیوں پر فرض ہے کہ ان کی خدمت کے لئے پاس ر ہیں یا علیحدہ بھایوں کے پاس رہ سکتی ہیں؟ اور ان کے لئے برائے مہربانی واضح کر دیں کہ الگ رہنے سے گناہگار تو نہیں ہوں گی اور والد کی خدمت نہ کرنے پر آخرت میں پکڑ تو نہیں ہو گی؟واضح رہے کہ اگر بچیاں الگ ہو بھی جائیں تو ایک بیٹا باپ کی خدمت کی نیت سے باپ کے پاس رہے گا۔برائے مہربانی جلد جواب عنایت فرمائیں کیونکہ مجھے اور میرے کزن کو خود اور جلد فیصلہ کرنا ہے کیونکہ بچوں کے تایا،مامو اور چاچو وغیرہ اس شخص سے اپنی عزت محفوظ رکھنے کے لئے الگ ہو چکے ہیں۔جذاک اللہ۔ والسلام ،محمد طلحہ۔فیصل آباد

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 233-213/D=3/1438
 
بچیوں کے بھائی حالات کا صحیح جائز لیں کیونکہ باپ کے بعد ولایت انہیں کی ہے بچیوں کا باپ کے قریب جانا اگر بچیوں کے حق میں اخلاقی طور پر نقصان دہ ہے تو وہ اس پر پابندی لگا سکتے ہیں اور بچیاں اگر باپ سے ملنے ملانے جائیں تو بھائی خود بھی ساتھ میں رہیں نیز بچیوں کے نکاح کی ذمہ داری بھی بھائی پوری کریں۔ والد کی رائے اور تعاون لے لیں لیکن فاسق اور لاپرواہ ہونے کی صورت میں پورا معاملہ ان پر چھوڑنا جائز نہیں، کیونکہ ولی متہمک (لاپرواہ) کی ولایت بہر تقدیر قائم نہیں رہتی بلکہ بعض حالات میں ولی الجد کی طرف منتقل ہو جاتی ہے جب اس کی طرف سے سوء اختیار یا امتناع پایا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :146721
تاریخ اجراء :Dec 21, 2016