پہلے کرایہ فکس کرکے ایڈوانس /ڈپوزٹ لے کر اور ساتھ میں اپنا پیسہ ملا کر تعمیر کروں اورکرایہ کو ایڈوانس /ڈپوزٹ سے وضع کروں تو کیا یہ جائز ہے؟

سوال کا متن:

(۱) پہلے کرایہ فکس کرکے ایڈوانس /ڈپوزٹ لے کر اور ساتھ میں اپنا پیسہ ملا کر تعمیر کروں اورکرایہ کو ایڈوانس /ڈپوزٹ سے وضع کروں تو کیا یہ جائز ہے؟
(۲) بننے سے پہلے ڈپوزٹ لوں او روقت مقررکرلوں (چھ مہینے یا ایک سال ) کے بیچ میں نہیں جاسکتے اور ساتھ میں کرایہ فکس کرلوں تو ہر مہینہ دینا ہے اور پورا ڈپوزٹ جانے کے وقت لوٹا دینے کا طے کرلوں پھر اس ڈپوزٹ اور اپنا پیسہ ملا کر تعمیر کرلوں تو کیا یہ جائز ہے؟
(۳) یا اور بھی کوئی جائز طریقہ ہے؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 607-536/D=6/1435-U
(۱) سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ کرایہ داری کے اس معاملہ کی صورت کیا تھی؟ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ بطور وعدہ طرفین کے درمیان یہ معاملہ طے ہوا ہے کہ جب مکان کی تعمیر مکمل ہوجائے گی تو اتنی مدت کے لیے اس طرح کا کمرہ اتنے کرایہ پر آپ کودیا جائے گا جس کے لیے بہ طور ڈپازٹ اتنی رقم پیشگی دیجیے جس سے کمرہ آپ کو حوالہ کرنے کے بعد سے کرایہ وضع ہونا رہے گا، اگر معاملہ کی یہی صورت ہے تو اس طرح کا معاملہ کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔ ففي ملتقی الأبحر: وتصح الإجازة مضافة․ قال في الدر المنتقی: أي إلی الزمان المستقبل کآجرتک أو فاسختک رأس الشہر أو أول رمضان وہو في شعبان (۳/ ۵۶۳ فقیہ الامت) البتہ اس ڈپازٹ کی رقم کی حیثیت قرض کی ہوگی آپ اسے استعمال کرسکتے ہیں اور اصل کرایہ کا معاملہ کمرہ تیار ہونے کے بعد سے شروع ہوگا؛ لہٰذا مکان تیار ہونے کے بعد ڈپازٹ دینے والا کمرہ نہ لینا چاہیے، یا تعمیر کرنے والا نہ دینا چاہے تو ہرایک کو اس بات کا اختیار ہوگا۔
(۲) خواہ کرایہ ڈپازٹ سے وضع کریں یا ڈپازٹ کی رقم محفوظ رکھیں اور کرایہ الگ سے لیں دونوں صورتوں میں وہی تفصیل ہے جو اوپر لکھی گئی۔
(۳) نمبر (۱) میں جواز کی صورت کی وضاحت کردی گئی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :52172
تاریخ اجراء :Apr 22, 2014