زید کے دادانے 60/70/سال پہلے ایک آفس کرایہ پر لی تھی جس کا کرایہ آج بھی پورے برس کا 360/ ہے، آفس کی بھارا چھٹی پہلے دادا کے نام ، ان کے انتقال کے بعد والد کے نام اور ان کے نتقال کے بعد زید کے نام چلی آرہی ہے۔ مکان مالک بہت

سوال کا متن:

زید کے دادانے 60/70/سال پہلے ایک آفس کرایہ پر لی تھی جس کا کرایہ آج بھی پورے برس کا 360/ ہے، آفس کی بھارا چھٹی پہلے دادا کے نام ، ان کے انتقال کے بعد والد کے نام اور ان کے نتقال کے بعد زید کے نام چلی آرہی ہے۔ مکان مالک بہت پرانے کرایہ دار ہونے کی وجہ سے (یا کسی اور وجہ سے) کرایہ نہیں بڑھا نہیں سکتا یا بڑھا نہیں پاتااور قبضہ خالی نہیں کراسکتا۔ شریعت اسلام کی روشنی میں ہمیں بتائیں کہ ؛ (۱) زیدی اپنی کرایہ کی آفس میں جوکام کاج کرے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے؟ (۲) مکان مالک کرایہ بڑھانے کو کہے تو زید کیا کرے؟اس آفس کے بالکل پڑوس والی آفس جو وہاں کے کرایہ دار کے پاس تھی ، انہوں نے اس طرح معاملہ کیا کہ ایک پارٹی کو قبضہ دینے کے عوض انہوں نے اس پارٹی سے ایک فلیٹ لیا اورمکان مالک کو اس قبضہ لینے والی پارٹی نے غالبا دو لاکھ روپئے دیے، کیا اس طرح کا معاملہ شریعت کی نظر میں درست ہے؟زید کے قبضہ میں جو آفس ہے ، کیا وہ اس طرح کا معاملہ کرسکتاہے؟ اور اس طرح کے جدید اجارہ سے متعلق مسائل کی کتاب ہو تو ضرور بتائیں۔ 

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(ب): 1749=1380-11/1431
آفس میں کام کاج کرنے پر حاصل ہونے والی آمدنی زید کے لیے حلال ہے۔ 
(۲) بڑھا دینا چاہیے۔
(۳) پڑوس والے آفس کے بارے میں جو معاملہ کیا گیا وہ شرعاً درست نہیں۔ زید کے لیے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ مستقل اس موضوع پر کوئی جدید کتاب ہماری نظر سے نہیں گذری۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :26095
تاریخ اجراء :Oct 13, 2010