زید نے اپنا مکان فروخت کرنے کے لیے بکر کے ساتھ دس ملین پر معاہدہ کیا۔ تین ملین پیشگی جمع کردئے گئے اور سات ملین باقی رہا جس کو تین ماہ کے اندر ادا کرنا تھا۔ معاہدہ کی ایکشرط یہ تھی کہ اگر بقیہ رقم تین ماہ کے اندرادا نہیں ک

سوال کا متن:

زید نے اپنا مکان فروخت کرنے کے لیے بکر کے ساتھ دس ملین پر معاہدہ کیا۔ تین ملین پیشگی جمع کردئے گئے اور سات ملین باقی رہا جس کو تین ماہ کے اندر ادا کرنا تھا۔ معاہدہ کی ایکشرط یہ تھی کہ اگر بقیہ رقم تین ماہ کے اندرادا نہیں کی جائے گی تو معاہدہ کینسل ہوجائے گا او ر پیشگی رقم جس کو زید نے وصول کیا ہے وہ بکر کو واپس کردے گا۔بکر نے مقرر کردہ ادائیگی کی رقم وقت پر نہیں ادا کی۔ اس لیے زید نے بکر سے کہا کہ وہ ان دونوں کے درمیان معاہدہ کے مطابق پیشگی رقم واپس لے لے۔ لیکن بکر نے انکار کردیا اور زید کے خلاف معاہدہٴ فروخت کی خلاف ورزی کی وجہ سے مقدمہ کردیا۔ اب یہ معاملہ چند سالوں سے عدالت میں ہے۔ پیشگی رقم اور مکان زید کے قبضہ میں ہے۔ زید نے پیشگی رقم کو اپنے کاروبار اور اپنے قرضہ وغیرہ کو ادا کرنے میں لگا دیا۔ جھگڑے کورفع کرنے کے لیے زید تین ملین کی پیشگی رقم بکر کو ادا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ تاہم،عدالت اس کیس کا فیصلہ زید یا بکر کے حق میں دے گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا زید اس اثاثہ پر جو کہ پیشگی رقم تین ملین سے کم ہے زکوة ادا کرے گا ،اور کیس کا فیصلہ ہونے تک تین ملین پیشگی رقم کس زمرہ میں آئے گی یعنی لون، امانت، ملکیت وغیرہ، اور اس پر کون زکوة ادا کرے گا زید یا بکر؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1857=1477/ھ
 
یہ تین ملین پیشگی لی ہوئی رقم جزو ثمن ہے، زید (بائع) نے جب اس پر قبضہ کرلیا تو وہ اُس کا مالک ہوگیا اور اب بھی وہی مالک ہے جب تک بکر (مشتری) کو واپس نہ کرے گا اس پر اسی کی ملکیت ثابت رہے گی، اور جب وہ مالک ہے تو زکاة کی ادائیگی بھی اُسی (زید) پر واجب ہے، بکر پر نہیں ہے۔
  نوٹ : جواب درست ہے، البتہ بکر اپنی پیشگی رقم واپس نہیں لے رہا ہے تو اگر زید تین ملین رقم علاحدہ کرکے بطور امانت محفوظ کردے تو ٹھیک ہے ورنہ جب تک زید کے مال میں شامل رہے گا، اس کی زکاة زید کے ذمہ واجب ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :7362
تاریخ اجراء :Nov 2, 2008