کیا باپ کی حرام سے کمائی ہوئی دولت اولاد کے لیے جائز ہوگی یا نہیں؟

سوال کا متن:

کسی کا باپ جوا، سٹے ،بیاز کا کام کرتا ہو اور اس کا انتقال ہوگیا ہو اور اس کی اولاد ہو تو کیا اس کے باپ کی حرام سے کمائی ہوئی دولت اولاد کے لیے جائز ہوگی یا نہیں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1092-955/L=10/1440
اگر کسی کے والد نے جوا ،سٹہ سود وغیرہ سے مال کمایا ہو تو ایسی کمائی کا استعمال ورثاء کے لیے جائز نہیں ؛بلکہ اگر صاحب مال کا علم ہو تو اس کو واپس کرنا ضروری ہے ورنہ بلانیتِ ثواب فقراء پر صدقہ کردیا جائے۔واضح رہے کہ یہ حکم اس صورت میں جبکہ مال حرام مخلوط نہ ہوبلکہ متمیز ہو اور اگر مالِ حرام حلال کے ساتھ مخلوط ہو تو مالِ حرام کے بقدر صدقہ کرکے یا مالک کا علم ہونے کی صورت میں اس کو واپس کرکے اس تمام مال کو ورثاء کے لیے استعمال میں لانا جائز ہوجائے گا ۔ مات وکسبہ حرام فالمیراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بہذہ الروایة، وہو حرام مطلقا علی الورثة فتنبہ. اہ. ح، ومفادہ الحرمة وإن لم یعلم أربابہ وینبغی تقییدہ بما إذا کان عین الحرام لیوافق ما نقلناہ، إذ لو اختلط بحیث لا یتمیز یملکہ ملکا خبیثا، لکن لا یحل لہ التصرف فیہ ما لم یؤد بدلہ کما حققناہ قبیل باب زکاة المال فتأمل.(رد المحتار:7/ ،باب البیع الفاسد)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170993
تاریخ اجراء :Jun 27, 2019