كسی وارث كے ذمے جو قرض ہے اس كا كیا حكم ہے؟

سوال کا متن:

میری امی نے میرے نانا کے پاس سے تیس ہزار روپئے قرضہ لیا۔کچھ دنوں کے بعد میرے نانا نے میری امی سے کہاں کہ میں نے جو تیس ہزار روپئے قرضہ دیا ہے اس میں سے دس ہزار معاف کر دیتا ہوں اور باقی کے بیس ہزار جب بھی تمہارے پاس میسر ہو میرے ایصال ثواب کے لئے مسجد میں دیدینا ۔اور کوئی شرط نہیں لگائی تھی کہ میرے حیات میں دینا یا میرے مرنے کے بعد۔صرف اتنا بولا تھا کہ جب بھی تمہارے پاس میسر ہو اس وقت دے دینا۔اب نانا کا انتقال ہو گیا ہے ۔تو اس صورت میں وصیت پوری کی جائیگی یا پھر وہ پیسے میراث میں شمار ہوں گے ۔اور دس ہزار جو میرے نانا نے معاف کر دیئے تھے وہ معاف ہوں گے کہ نہیں امید ہے کہ ان شائاللہ بالتفصیل جواب دیکر ممنون و مشکور ہوں گے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 831-710/D=09/1440
نانا نے تیس ہزار (۳۰۰۰۰) قرض میں سے دس ہزار (۱۰۰۰۰) جو معاف کر دیئے وہ معاف ہوگئے اور بیس ہزار (۲۰۰۰۰) جو ایصال ثواب کے لئے خرچ کرنے کوکہا یہ وصیت ہوگئی اگر نانا کے انتقال کے وقت ان کے جملہ ترکہ کا ایک تہائی بیس ہزار یا اس سے زیادہ ہوتا ہے تو ایصال ثواب کی وصیت درست ہوگئی اور والدہ کو جب سہولت ہو نانا کے ایصال ثواب میں خرچ کردیں۔ نہ بیس ہزار ترکہ بنے گا نہ اس میں وراثت جاری ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170192
تاریخ اجراء :May 18, 2019