ایک آدمی نے اپنے بھانجے کو ضرورت کی بنا پر پلاٹ دیا (اس وقت 160000/- قیمت تھی) اس شرط پر کہ جلد ہی یہ رقم واپس کر کے پلاٹ لے لوں گا۔ اس آدمی نے اپنے نام کے کاغذات بھانجے کے حوالے کردیے۔ پلاٹ کی قیمت بڑھنے کی بنا پر مشتری ن

سوال کا متن:

ایک آدمی نے اپنے بھانجے کو ضرورت کی بنا پر پلاٹ دیا (اس وقت 160000/- قیمت تھی) اس شرط پر کہ جلد ہی یہ رقم واپس کر کے پلاٹ لے لوں گا۔ اس آدمی نے اپنے نام کے کاغذات بھانجے کے حوالے کردیے۔ پلاٹ کی قیمت بڑھنے کی بنا پر مشتری نے اپنی ہمشیرہ کو 600000/- میں پلاٹ دیا کہ ماموں سے سے جاکر کاغذات اپنے نام پر کرالو۔ اب بھی پلاٹ سرکاری طور پر ماموں کے نام پر ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ وہ آدمی اتنے ہی پیسے (جتنے میں بیچا تھا) دے کر پلاٹ واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1520/ ھ= 1192/ ھ
 
ماموں بھانجہ کے مابین جو معاملہ طے ہوا اگرچہ الفاظ اس میں بیع و شراء کے ہوں مگر حقیقةً وہ معاملہ بیع کا نہیں بلکہ رہن کا معاملہ تھا اور معاملہٴ رہن ہونے کی وجہ بھانجہ اس پلاٹ کا مالک نہ ہوا اور جب وہ مالک ہی نہ ہوا تو اس کا اپنی ہمشیرہ کو چھ لاکھ میں پلاٹ کا بیچنا بھی درست نہ ہوا، حاصل یہ کہ مذکورہ پلاٹ صورت مسئولہ میں ابھی تک ماموں کی ملکیت میں ہے، جس قدر رقم (قرض) ماموں سے لی ہے اتنی رقم واپس کرکے پلاٹ واپس لینے کا ان کو حق ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :1997
تاریخ اجراء :Nov 25, 2007