زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں ہے ؛بلکہ ہبہ اور عطیہ ہے

سوال کا متن:

مسئلہ عرض ہے کہ زید اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو وراثت تقسیم کرنا چاہتا ہے اولاد میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہے اور وراثت میں پندرہ لاکھ روپئے ایکڑ کے مطابق ساڑھے چار ایکڑ زمین ہے زمینی اور قیمتی اعتبار سے دونوں طور پر وراثت تقسیم فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1217-132T/L10/1440
زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں ہے ؛بلکہ ہبہ اور عطیہ ہے اور ہبہ وعطیہ میں اولاد (خواہ مذکر ہوں یا مونث)کے درمیان مساوات سے کام لینا بہترہے؛اس لیے اگر زید اپنی حیات میں اپنی جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتاہے تو بہتر ہے کہ اپنی اور اپنی اہلیہ کی ضرورت کے بغیر اموال وجائیداد رکھ کر مابقیہ کو اپنی تمام اولادِ ذکور واناث میں برابر برابر تقسیم کردے ،اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو اس کے نیک یا محتاج ہونے کی وجہ سے جبکہ اس سے مقصود دیگر اولاد کو نقصان پہونچانا نہ ہو کچھ زائد دیدے تو اس کی بھی گنجائش ہے، نیز زمین کے قیمتی ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے بھی کمی زیادتی کی جاسکتی ہے یعنی زید ایسا کرسکتا ہے کہ دونوں زمینوں کی قیمتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس کی زمین زیادہ قیمتی ہے اس زائد قیمت کے عوض دوسرے کو زائد زمین دیدے ۔
قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: ۴/ ۳۹۱، کتاب الہبة، الباب السادس)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171435
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019