سوال کا متن:
میرے ماں باپ کا اپنی زندگی میں یہ منشا تھا کہ ان کی ساری پروپرٹی ان کے سات بیٹے اور ایک بیٹی کے درمیان برابری حصوں میں بٹیں ، میرے ماں باپ کا انتقال ہوچکاہے، سوال یہ ہے کہ کیا اب میں اپنا حصہ ان کے منشاء کے مطابق لے سکتی ہوں، گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟ یہ ساری باتیں سبھی بھائیوں کو معلوم ہے، براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 598-569/M=06/1440
ضابطہٴ میراث کے مطابق، بہن کا حصہ بھائی سے نصف (آدھا) ہوتا ہے لیکن صورت مسئولہ میں اگر تمام شرعی ورثہ (سات بھائی ایک بہن) بالغ ہیں اور وہ سب بخوشی اس کے لئے راضی ہیں کہ والدین کی متروکہ جائیداد ، تمام بھائی بہن کے درمیان برابری کے ساتھ تقسیم ہو جائے اور کسی کو کوئی اعتراض وناگواری نہیں ہے تو آپسی رضامندی کے ساتھ والدین کی منشاء کے مطابق بٹوارہ کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں گناہ نہیں، لیکن اس کا خیال رہے کہ یہ کام تمام بھائیوں کی موجودگی میں اُن کے سامنے ہوتا کہ کسی کا حصہ ہڑپنے کا الزام نہ آئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa : 598-569/M=06/1440
ضابطہٴ میراث کے مطابق، بہن کا حصہ بھائی سے نصف (آدھا) ہوتا ہے لیکن صورت مسئولہ میں اگر تمام شرعی ورثہ (سات بھائی ایک بہن) بالغ ہیں اور وہ سب بخوشی اس کے لئے راضی ہیں کہ والدین کی متروکہ جائیداد ، تمام بھائی بہن کے درمیان برابری کے ساتھ تقسیم ہو جائے اور کسی کو کوئی اعتراض وناگواری نہیں ہے تو آپسی رضامندی کے ساتھ والدین کی منشاء کے مطابق بٹوارہ کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں گناہ نہیں، لیکن اس کا خیال رہے کہ یہ کام تمام بھائیوں کی موجودگی میں اُن کے سامنے ہوتا کہ کسی کا حصہ ہڑپنے کا الزام نہ آئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند