دو بھائی اور دو بہنوں كے درمیان وراثت كی تقسیم

سوال کا متن:

محترم ایک قطعہ ارا ضی کے تصفیہ میں شرعی رائے مطلوب ہے ۔ امید کہ آپ جلد از جلد شریعت الہی کے مطابق میری راہنمائی کریں گے .... خیر میرے دادا جان کا ایک مکان ہے جس کا کل رقبہ 1540 اسکوائر فٹ ہے .....دادا جان کو چا ر اولادیں ہیں، دو لڑکے اور دو لڑکیاں، ایک بہن نے میرے والد محترم کو اپنا شر عی حق راضی مر ضی سے ہبہ کردیا ہے ... دوسری بہن(میری چھوٹی پہوپہی) کو 220 اسکوائر فٹ جگہ شرعی حصہ کے طور پر دے دی گئی ہے .... اب ا صل مسئلہ میرے تایا جان کا ہے جنہوں نے ایک غیر مسلم عورت کو مسلمان بنا کر اس عورت سے حیدرآباد میں نکاح کر لیا تہا اور کبھی بھی اس مکان سے جو کہ میرے دادا جان کی ملکیت ہے اس سے کوئی تعلق نہیں رکہا نہ ہی کبھی کوئی ٹیکس وغیرہ ادا کیا -نہ اپنی نو مسلم شریک حیات کو کبھی اس گھر سے متعارف کروایا نہ ہی میری دادی جان سے ملوانے لائے ...تایا جان کے انتقال کے بعد میری تا ئی دوبارہ مرتد ہوگئی اور تمام اولادوں کو بھی مشرک بنا دیا....میرے والد کے لاکھ اصرار پر بھی نہ ہی تا ئی نہ تایا زاد بھائی بہن کبھی اس گھر کو آئے ...بلکہ مشرک ہی بنے رہے .....ابھی میری ایک تایا زاد بہن نے ایک مسلم شخص (یہ شخص کی دوسری بیوی بنی ہے ) دوسری شادی کی ہے اور اسلام قبول کیا ہے ...باقی تمام تا یا زاد بہائی بہن کفر پر ہے پوجا پاٹ کرتے ہیں، تائی جان کے انتقال پر ان کو نذر آتش تک کیا گیا ہے (میرے والد اور میں نے بہت کوشش کی ان کے دوبارہ مسلمان ہو جانے کے لئے لیکن ہماری تائی کا کہنا تھا کہ زندگی میں جب مجھے تمہارے تایا نے وہ گھر سے کبھی متعارف نہیں کرایا تو ان کے انتقال کے بعد آنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا)۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اس عورت کی یہ جا ئداد میں کتنا حق رہے گا ؟ میرے والد کو تین بیٹے (بشمول راقم الحروف کے ) اور ایک بیٹی ہے تو جس طرح میری بہن کا حق ہے وہی اس کو ملے گا؟یا میرے تایا جان کا پورا حصہ اس کو دیدیا جائے گا؟ اور اگر ہاں تو .... مالیاتی ٹیکس نل ٹیکس( نا جائز قبضہ جات وغیرہ) بھر کر میرے والد والدہ نے جو اس پرا پرٹی کو قرق ہو جانے سے بچایا ہے ان تمام اخراجات کو کس طرح شرعی طور پر ابھی تقسیم کے وقت وصولا جائے گا؟
برائے کرم آپ موجودہ 1320 اسکوائر فٹ اراضی کا تصفیہ کریں جس میں 220 اسکوائر فٹ میری بڑی پہوپہی نے میرے والد کو ہبہ کردیا تھا، بالائی سطور میں اس کا ذکر کیا ہوں۔برائے مہربانی جلد از جلد جواب دے دیں جس کے مطابق میں اور میرے بہائی فیصلہ لے کر اللہ کے سامنے سرخ رو ہو سکے ۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 535-73T/D=6/1439
 
صورت مسئولہ میں آپ کے دادا کے مکان میں اگر ان کے انتقال کے وقت دادی زندہ نہیں تھیں تو ازروئے شرع ترکہ کی تقسیم ان کی اولاد کے درمیان چھ حصوں میں ہوگی، دو دو حصے دونوں بھائیوں کو اور ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو ملے گا، اس بنیاد پر مذکورہ زمین میں سے ہربہن کو تقریباً 256.66 اسکوائر فٹ اور ہربھائی کو تقریبا 1513.33 اسکوائر فٹ زمین ان کا حق ملے گا، جس میں آپ کی بڑی پھوپھی نے آپ کے والد کو اپنا حصہ اگر ترکہ کی تقسیم اور قبضے سے پہلے سے ہبہ کردیا ہو تو یہ ہبہ درست نہیں ہوا، اور چھوٹی پھوپھی کو جو حصہ دیا گیا وہ بھی مقررہ حصے سے کم معلوم ہوتا ہے اور آپ کے تایا اپنے پورے حصے کے حق دار تھے، آپ کے والدین نے اس مکان پر جو کچھ خرچ کیا اگر اس کو لینے کا کوئی معاملہ طے نہیں ہوا تھا تو وہ تبرع ہے۔
 جو اب نمبر ۲: (الف): اور تایا کے ترکہ کے حقدار ان کے مستحق ورثہ ہوں گے۔ (ب) : البتہ تایا کے ترکہ کو ورثہ میں تقسیم کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آپ کے تایا کی بیوی اور ان کی اولاد تایا کے انتقال کے وقت دین اسلام پر قائم تھے یا نہیں؟ (ج): بقول آپ کے انھوں نے ارتداد اختیار کرلیا تو کس نے تایا کی زندگی میں اختیار کیا اور کس نے ان کی موت کے بعد؟ اس کو مزید تحقیق کے ساتھ واضح کرکے لکھیں۔ 
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :158673
تاریخ اجراء :Feb 28, 2018