وراثت صرف ایك بچے كو دیدینا؟

سوال کا متن:

ہمارے گھر میں ہم چھہ افراد ہیں والد والدہ ایک بڑا بھائی اور تین بہنیں اللہ کے کرم سے سب حیات ہیں ۔۔۔
(1) ہمارے والد کو ترکے میں کھیت ملے تھے جسے انہوں نے بیچ دیے اور سارا پیسہ بھائی کے لئے دوکان خریدنے میں لگا دیا یہ سب ہم بھائی بہنو کی شادی سے پہلے ہوا ۔۔
(2)ہم لوگوں کی شادی کے بعد ایک پلاٹ جو کہ والدہ کے نام تھا اسے بیچا گیا اور آ دھے سے زیا دہ پیسہ بھائی کے قرض ادا کرنے میں لگا دیا گیا باقی والدہ نے اپنے پاس رکھا ۔۔۔
(3)اب ہماری والدہ کو ترکےمیں ملا مکان بکا ہے جسکا سارا پیسہ والدہ کے پاس ہے اور وہ اپنی زندگی میں اپنی اولادوں میں باٹنا چاہتی ہیں اور کچھ والد صاحب کو دینا چاہتی ہیں اور کچھ اپنے پاس بھی رکھنا چاہتی ہیں ۔۔۔
ہم تینوں بہنو کا سوال ہے کیا پہلی اور دوسرے نمبر کی جائداد میں کیا ہمارا حق تھا اور اگر تھا تو کیا اب ہمیں ملنا چاہئے ۔۔
اور تیسرے نمبر کی جایداد کی صحیح تقسیم کیا ہوگی ۔۔۔
اور ہمارے بھائی جو پہلے اور دوسرے نمبر کی جائداد میں سے کافی کچھ لے چکے ہیں اب انہیں ماں کی جائداد میں کتنا ملنا چاہئے ۔۔۔۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1214-1157/sn= 11/1438
(الف) والد، والدہ اپنی زندگی میں گو اپنی جائداد کے تنہا مالک ہوتے ہیں، اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن پھر بھی اگر وہ اپنی زندگی میں اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو انھیں چاہیے کہ تمام اولادوں خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب کا خیال رکھیں، بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا اچھا نہیں ہے، اگر اس کا مقصد بعض بچوں کو ”محروم“ کرنا اور انھیں ضرر پہنچانا ہو تب تو ناجائز اور بڑا گناہ ہے۔ آپ کے والد نے صرف بڑے بیٹے کو سارا پیسہ دے کر اچھا نہیں کیا، انھیں چاہیے تھا کہ تمام بچوں کو دیتے بہرحال والد نے اگر بڑے بیٹے کو مکمل طور پر دیدیا تھا تو بیٹا اس کا مالک ہوگیا، اس میں دیگر اولاد کا اب کوئی حق نہیں ہے۔
(ب) آپ کی والدہ کو چاہیے کہ اپنے تمام بچوں کو اس پیسے میں شریک کریں، بڑے بیٹے کو بھی دیں اگرچہ اس نے پہلی دونوں جائدادوں میں کافی کچھ لے چکا ہو؛ البتہ اگر بڑا بیٹا خود کفیل ہو، اس کے پاس اچھا خاصا مال وسرمایہ ہو اور بیٹیاں (آپ لوگ) نسبةً کمزور ہوں تو صورتِ مسئولہ میں وہ سارا پیسہ (جتنا وہ دینا چاہتی ہیں) بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیں اور بیٹے کو نہ دیں یا پھر اکثر بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیں، کچھ بیٹے کو دیدیں، یہی بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :153195
تاریخ اجراء :Aug 12, 2017