کیا ترکہٴ میت یعنی مال میراث گھٹیا مال ہے ؟

سوال کا متن:

ہمارے ہاں بعض عورتوں کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ کا توالحمد للہ شوہراور بیٹے ہیں اور یہ ذلیل مال(میراث) آپ مت لیں۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال میراث (الیدالسفلی)کی طرح ہے اور اپنا کمانا (الیدالعلیا)ہے اس لیے یہ مت لیں ۔ مال متروکہ میت کی کیا حیثیت ہے اعلی،وسط ادنی؟ دلیل کے ساتھ جواب دیدیں شکریہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 565-551/N= 6/1438
میت کا ترکہ کسی بھی وارث کے لیے خواہ امیر ہو یا غریب گھٹیا مال نہیں ہے؛ بلکہ ہر ایک حق میں اچھا مال ہے؛ کیوں کہ وراثت کی بنیاد رشتہ زوجیت یا خاص قرابت ہے، اس میں غربت یا مالداری کا کوئی دخل نہیں ہے؛ اسی لیے شریعت اسباب ملک میں جبری (غیر اختیاری ) سبب ملک ہے،یعنی: وارث یا مورث کی مرضی واختیار کے بغیر وارث کو ترکہ میں حق وحصہ ملتا ہے، اس میں ہدیہ یا صدقہ کی طرح دینے والے اور لینے والے کے درمیان کوئی اعلی اور دوسرا ادنی نہیں ہوتا؛ بلکہ لینے والا لینے کے باوجود اپنے مقام ومرتبہ پر رہتا ہے ، پس آپ کے یہاں کسی شخص نے عورتوں( بہنوں )سے جو بات کہی، وہ از روئے شرع بالکل غلط وبے بنیاد ہے، یہ عورتوں کا حصہ ہڑپ کرنے کے لیے گھڑی ہوئی بات ہے، اللہ تعالی حفاظت فرمائیں ۔ قال اللہ تعالی: للرجال نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون مما قل منہ أو کثر، نصیبا مفروضاً(سورہ نسا،آیت:۷)،وقال فی الھندیة (کتاب الفرائض، الباب الأول۶:۴۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند):الترکة تتعلق بھا حقوق أربعة:جھاز المیت ودفنہ، والدین، والوصیة، والمیراث … کذا فی المحیط اھ،وقال في رد المحتار (کتاب الفرائض،۱۰:۴۹۳ط مکتبة زکریا دیوبند):الترکة فی الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیاً عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال کما في شروح السراجیة اہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :149566
تاریخ اجراء :Mar 23, 2017