والدین کی حیات میں والد کی مرضی سے والد کے نام کا مکان لڑکوں نے فروخت کیا تو اس رقم کی تقسیم والدہ چار لڑکے اور دو لڑکیوں میں کس طرح اور کس تناسب سے ہوگی؟

سوال کا متن:

والدین کی حیات میں والد کی مرضی سے والد کے نام کا مکان لڑکوں نے فروخت کیا تو اس رقم کی تقسیم والدہ چار لڑکے اور دو لڑکیوں میں کس طرح اور کس تناسب سے ہوگی؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 842-860/SN=9/1437
اس سلسلے میں حکم شرعی یہ ہے کہ باپ اپنی زندگی میں تنِ تنہا اپنی املاک کا مالک ہے، اس میں اولاد یا بیوی کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے؛ باقی اگر باپ اپنی مرضی و خوشی سے اپنی جائداد وغیرہ زندگی ہی میں اولاد اور بیوی کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے؛ تاکہ بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، جائزہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جو مکان فروخت ہوا اگر باپ اس کی قیمت بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اسے دو طرح تقسیم کرسکتا ہے۔
(۱) میراث کے ضابطہ کے مطابق تقسیم کرے، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ جو رقم حاصل ہوئی ہے، اس میں سے باپ اپنے لئے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ کے اسی (۸۰) حصے کرے، ان میں سے اپنی بیوی کو دس حصے، ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات سات حصے دیدے۔
(۲) لیکن چونکہ زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ ہوتا ہے، میراث نہیں، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعا برابری پسندیدہ ہے؛ اس لیے میراث کے ضابطے کے مطابق تقسیم کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ برابری کے اصول کے مطابق تقسیم کرے، اس کی شکل یہ ہوگی کہ اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے بہ قدر ضرورت رکھ کر (اگر چاہے تو اہلیہ کو اسی وقت کچھ دے سکتا ہے) مابقیہ رقم اپنے چاروں بیٹوں او ردونوں بیٹیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردے؛ البتہ اگر کوئی اولاد زیادہ ضرورت مند ہے یا والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہے یا اور کوئی وجہ ترجیح موجود ہے تو باپ اسے نسبةً کچھ زیادہ بھی دے سکتا ہے، شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ درمختار میں ہے: لابأس بتفضیل بعض الأولاد ․․․․ وکذا في العطایا، إن لم یقصد بہ الإضرار وإن قصدہ فسوی یعطی البنت کالابن عند الثانی، وعلیہ الفتوی، وقال الشامي: قولہ ”وعلیہ الفتوی“ أي قول أبی یوسف من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذی ہو قول محمد․ (درمختار مع الشامی: ۸/۵۰۳، ط: زکریا)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :65695
تاریخ اجراء :Jun 28, 2016