ایک عورت اسماء (عمر نوے سال سے زائد) کا چند سالوں پہلے انتقال ہوا۔ اس نے درج ذیل وارث چھوڑے: (۱)شوہربکر (عمر تقریباً سو سال)۔ (۲)لڑکا جاوید (عمر تقریباً ستر سال، شادی شدہ صاحب اولاد)۔ (۳)پہلی لڑکی سلمی(عمر تقریباً بہتر سال

سوال کا متن:

ایک
عورت اسماء (عمر نوے سال سے زائد) کا چند سالوں پہلے انتقال ہوا۔ اس نے درج ذیل
وارث چھوڑے: (۱)شوہربکر
(عمر تقریباً سو سال)۔ (۲)لڑکا
جاوید (عمر تقریباً ستر سال، شادی شدہ صاحب اولاد)۔ (۳)پہلی لڑکی سلمی(عمر تقریباً
بہتر سال، شادی شدہ صاحب اولاد)۔ (۴)دوسری
لڑکی ساجدہ (عمر تقریباً اڑسٹھ سال ) جس کی شادی ہوگئی تھی او راس کے دس اولاد تھی
لیکن وہ اپنے بچوں اور شوہر کو تقریباً تیس سال پہلے چھوڑکر کہیں چلی گئی۔ یقینی
طور پر وہ وقتاً فوقتاً گھر کے کچھ افراد کے رابطہ میں تھی لیکن گھر واپس نہیں آئی۔
لیکن بدقسمتی سے وہ بہت سالوں سے بالکل ہی غائب ہوگئی ہے جب کہ اس کے بچے کہتے ہیں
کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان تمام کے دوران اس کی ماں اسماء کا تین سال پہلے
انتقال ہوگیا۔ اب وہ لوگ کس طرح اسماء کی چھوڑی ہوئی پراپرٹی کو تقسیم کریں گے، کیوں
کہ کوئی بھی اس کی دوسری لڑکی ساجدہ کے بارے میں نہیں جانتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی
شخص اس کی موت کی یا اس کی موت اس کی ماں کی وفات سے پہلے یا بعد میں ہونے کی یقین
دہانی نہیں کراسکتا ہے (کیوں کہ اسلامی قانون کے مطابق اگر اس کا اس کی ماں سے
پہلے انتقال ہوا ہے تو اس کا حصہ ختم ہوجائے گا)۔ اس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی
گئی لیکن سب بیکار۔ مجھے امید ہے کہ میری تمام تفاصیل واضح طور پر آپ کے سامنے آگئی
ہوگیں۔ اس لیے میرا سوال ہے کہ کیا ہم اس کی دوسری لڑکی ساجدہ کو مردہ مانیں اور
اسماء کی پراپرٹی کو اس کے شوہر بکر ، لڑکاجاوید، اورپہلی لڑکی سلمی کے درمیان تقسیم
کریں یا ہم اس کی گم شدہ لڑکی ساجدہ کا بھی حصہ لگائیں اور اس کو اس کے بچوں کو دیں؟
یہ بات واضح رہے کہ اس وقت دوسری لڑکی ساجدہ کی عمر کی سب عورتیں تو نہیں لیکن
اکثر کا انتقال ہوچکا ہے۔سماجی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ لوگ اس کی پراپرٹی کا حصہ
اب مزید رکھنے کے لیے انتظار نہیں کرسکتے ہیں۔


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب):
2131=428 tb-1/1431
 
اسماء
مرحومہ کا کل ترکہ از روئے شرع 16 سہام میں کرلیا جائے جس میں سے ایک چوتھائی شوہر
بکر کو دیدیا جائے یعنی 4سہام، اور جاوید کو 6سہام اور سلمیٰ اور ساجدہ کو 3,3
سہام دیدیا جائے۔ ساجدہ کا حصہ ان کے لڑکوں کے پاس محفوظ رکھ دیا جب یقینی طور پر
ان کی موت کی خبر مل جائے یا 90 سال کی عمر ہوجائے تو اس وقت اس کو مُردہ مان کر
ان کا حصہ ان کی اولاد میں تقسیم ہوجائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :18290
تاریخ اجراء :ایک عورت اسماء ع