جب حق و باطل کا فیصلہ قیامت کے دن ہی ہونا ہے تو پھر قیامت آنے سے پہلے قبر میں عذاب و راحت کا کیا مطلب ؟

سوال کا متن:

ہم سب کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ سب انسانوں سے خطاب کرے گا ۔ جب حق و باطل کا فیصلہ قیامت کے دن ہی ہونا ہے تو پھر قیامت آنے سے پہلے عذاب قبر میں سکون کا کیا مطلب ؟ یعنی حساب و کتاب کے لیے اللہ تعالی انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
امید ہے کہ آپ کو میرا سوال سمجھ میں آگیا ہوگا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1411-1362/SN=1/1439
قبر میں عذاب یا راحت کا ہونا قرآن و حدیث کے واضح نصوص سے صراحةً ثابت ہے، ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس پر ایمان رکھے، اسی کی وجہ و علت کے درپے نہ ہو، قبر میں عذاب یا راحت میں کیا مصلحت ہے اسے اللہ تبارک وتعالی (جو احکم الحاکمین ہے) کے حوالے کردے؛ باقی آپ کے اطمینان کے لیے عرض ہے کہ پوری جزاء و سزا تو قیامت قائم ہونے کے بعد ہی ملے گی؛ لیکن قرآن وحدیث کے نصوص سے یہ بھی ثابت ہے کہ بعض اعمال کی کچھ جزاء وسزا دنیا میں بھی ملتی ہے، اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں جزاء وسزا ہوتی ہے قبر یعنی برزخ میں سزا ہوگی اس کی مثال ایسی ہے جیسے مجرم کو حوالات میں رکھا جاتا ہے۔ (دیکھیں: آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۲/ ۴۲۰، جدید تخریج شدہ) نیز قبر میں عذاب و راحت کی یہ مصلحتیں بھی ہوسکتی ہیں۔
(الف) مومن کو جنت دکھلادی جائے اور اسے جنت کی خوشخبری دے کر نہ صرف یہ کہ اس کے ذہنی اطمینان کا سامان مہیا کیا جائے؛ بلکہ جنت کی کچھ تھوڑي بہت نعمتوں سے بھی سرفراز کیا جائے۔
(ب) کافروں کو پہلے جنت دکھلاکر پھر دوزخ پیش کی جائے؛ تاکہ ان کو مزید حسرت ویاس ہو اور حصہ رسدی عذاب بھی پہنچایا جائے۔
(ج) گنہگار مسلمانوں کو عذاب اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ عذاب اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے اور بعث بعد الموت کے جنت میں جانے کے قابل بن سکے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :152940
تاریخ اجراء :Sep 30, 2017