میں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ میری ایک بیوی، چار لڑکیاں اورایک لڑکا ہے۔ کس تناسب سے ہر ایک میری جائیداد سے حصہ پائے گا۔ ایک گھر پہلے ہی سے میری بیوی کے نام سے ہے جس کو میں نے مہر میں دیا تھا۔ ایک گھ

سوال کا متن:

میں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ میری ایک بیوی، چار لڑکیاں اورایک لڑکا ہے۔ کس تناسب سے ہر ایک میری جائیداد سے حصہ پائے گا۔ ایک گھر پہلے ہی سے میری بیوی کے نام سے ہے جس کو میں نے مہر میں دیا تھا۔ ایک گھر میرے لڑکے کے نام پر ہے۔ بقیہ مکانات اور زمینیں میرے نام پر ہیں۔ کیا میں اپنی بیوی کے نام کی جائیداد جس کو میں نے اس کو بطور مہر کے دیا تھا تقسیم کے لیے اپنی جائیداد میں شامل کرلوں؟ جو مکان میرے لڑکے کے نام سے ہے کیا وہ بھی جائیداد میں شامل کیا جائے گا ،سب لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1067=1401/ ھ
 
آ پ نے بیوی کو مہر میں جو مکان دے دیا اس مکان کی وہی مالک ہیں اب اپنی تقسیم میں اس مکان کو شامل نہ کریں۔ اسی طرح جو مکان بیٹے کو دے دیا اوراس پر اس کا قبضہ بھی کرادیا ہو تو اس مکان کا مالک بیٹا ہوگیا۔ بیوی کو جو مکان دیا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ دینا ضروری سمجھتے ہیں تو ان کودے کر مالک و قابض بنادیں۔ اس کے علاوہ اگر اپنے لیے کچھ مختص رکھنا ضروری ہو تو ایسا بھی کرلیں اس کے بعد جو جائیداد وغیرہ بچے گی اس میں حکم یہ ہے کہ سب کے پانچ حصے کرکے ایک ایک حصہ سب کودے دیں اورجو مکان لڑکے پر پہنچ گیا ہے اس کی قیمت کو محسوب کرکے اس کو اب دئے جانے والے حصہ میں کمی کردیں چونکہ زندگی میں اولاد کو دینے کا حکم یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو برابر برابر دیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :6013
تاریخ اجراء :Jul 13, 2008