سوال کا متن:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ فقہی کتابوں میں قتل عمد اور قتل شبہ عمد کی تعریفات میں ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور صاحبین رحمہما اللہ کے مابین اختلاف ہے ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ قتل عمد کی تعریف میں ہتھیار اور الہ کا اعتبارکرتے ہیں اور صاحبین فاعل کے فعل اور ارادے کا اعتبار کرتے لہذا اس صورت میں آج کے زمانے میں فتوی کس کے قول پر ہے ابو حنیفہ کے قول پر یا صاحبین کے قول پر۔نیز ملکی قانون بناتے وقت کس کے قانون کا اعتبار کیا جائے گا اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آج کے موجودہ دور میں زہردے کر ہلاک کرنا یا زہر کا انجکشن لگانا یا یاقتل بالمثقل یا چلتی ٹرین سے دھکا دے کر گرا دینا کس قتل میں شمار ہوگا قتل عمد میں یا قتل شبہ عمد میں۔مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کا جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب کا متن:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1382-1326/M=1/1440
آپ کے سامنے قتل عمد اور قتل شبہ عمد کی تعریف میں کونسی اختلافی عبار ت ہے بعینہ وہ عبارت مع مکمل حوالہ لکھیں تاکہ اس کی مراجعت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے، اور کس ملک میں قانون بنانے کی ضرورت درپیش ہے؟ نیز کسی کو زہر دے کر مارنے کی تفصیل اور قتل بالمثقل کی صورت بھی واضح طور پر لکھ کر سوال کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Fatwa : 1382-1326/M=1/1440
آپ کے سامنے قتل عمد اور قتل شبہ عمد کی تعریف میں کونسی اختلافی عبار ت ہے بعینہ وہ عبارت مع مکمل حوالہ لکھیں تاکہ اس کی مراجعت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے، اور کس ملک میں قانون بنانے کی ضرورت درپیش ہے؟ نیز کسی کو زہر دے کر مارنے کی تفصیل اور قتل بالمثقل کی صورت بھی واضح طور پر لکھ کر سوال کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند