اغوا شدہ عورت کا کیا حکم ہے؟

سوال کا متن:

اغوا شدہ عورت کا کیا حکم ہے؟
اگر کسی منکوحہ عورت کو کوئی اغوا کرلے اور جب وہ عورت مل جائے تو وہ نشے کی حالت میں ہو یعنی ذہنی طورپر ڈری سی ہو ، چیخیں مارتی ہو ، زبان بھی اٹکتی ہو اور وہ کہے کہ مجھے کچھ پتا نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا، منکر سب باتوں سے ہو، دو دن بالکل بیہوش ہو ، ایک دن ہوش میں چوتھے دن مل جائے ،جس دن ہوش میں ہو اس کا کہنا ہے کہ کسی نے کچھ نہیں کیا، جب کہ لڑکا فون پر اور ایس ایم ایس پر یہ کہے کہ میں نے اس کے ساتھ تین دفعہ زنا کیا ہے ، عورت منکر ہو اس بات سے تو اس عورت کی کیا سزا ہے؟ اور لڑکے کی کیا ہے؟ جب اس عورت پر تہمت لگ رہی ہو اور عورت کو تین ماہ تک اس کے بعد حمل بھی نہ ہو اور لڑکا یہ بھی کہے کہ میں نے یہ کام اس لیے کیا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتاتھا ،شادی شدہ سے عورت، اس لیے زنا کیا ہے، یا ویسے عورت کے شوہر او رگھر والوں تنگ کر رہا ہے ، کسی دشمنوں کے کہنے پر۔ آپ مہربانی کرکے جواب دیں۔

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 513-514/N=6/1436-U
(۱) محض لڑکے کے اقرار سے ، وہ بھی فون اور ایس ایم ایس پر عورت کے حق میں زنا ثابت نہ ہوگا جب کہ وہ انکار بھی کررہی ہے۔ اور اگر بالفرض کسی عورت کا اغوا کرکے اس کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا ہے یا پہلے اسے نشہ دے کر بیہوش کردیا گیا، پھر اس کے ساتھ زنا کیا گیا تو عورت عند اللہ مجبور ومعذور قرار پائے گی اور اسے کوئی گناہ نہ ہوگا۔
(۲) محض فون اور ایس ایم ایس پر اقرار کرنے سیلڑکے کے حق میں شرعاً زنا ثابت نہ ہوگا، کیوں کہ اقرار سے زنا اس وقت ثابت ہوتا ہے جب زانی یا زانیہ دارالاسلام میں اسلامی قاضی کے سامنے چار مرتبہ چار مجلسوں میں اقرار کرے، نیز دوسرا شخص (زانی یا زانیہ) انکار بھی نہ کرے، اور اس صورت میں زنا ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اس اقرار کی بنیاد پر اس دارالاسلام میں بھی زنا کی شرعی سزا جاری نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اگر اس نے واقعی طور پر کسی عورت کے ساتھ زبردستی یا اسے بیہوش کرکے زنا کیا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک سخت مجرم وگنہ گار ہوگا اور آخرت میں سخت سزا کا مستحق ہوگا ولا حد․․․ بإقرار إن أنکر الآخر للشبہة (درمختار مع الشامي: ۶/۴۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، قولہ: ”ولا بإقرار إن أنکرہ الآخر“: أي: لو أقر أحدہما بالزنا أربع مرات في أربع مجالس وأنکر الآخر سواء ادعی المنکر النکاح أو لم یدعہ لا یحد المقر الخ (شامي)۔ فإن الشرع لم یخص اسم الزنا بما یوجب الحد بل بما ہو أعم والموجب للحد بعض أنواعہ الخ (شامي: مطلب: الزنا شرعاً لا یختص بما یوجب الحد بل أعم ۶:۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :58722
تاریخ اجراء :Apr 20, 2015