کیا فقہا احناف قتل عمد میں دیت کے قائل ہیں؟

سوال کا متن:

گذشتہ دنو ں امریکی باشندے ریمنڈڈیوس کو جو دوہرے قتل کا ملزم تھا ،بیس کروڑ کی دیت کی ادائیگی کے بعد رہا کر دیا گیا ،شرعی طور پر اس سلسلے میں مند رجہ ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے ۔
(الف )کیا فقہا احناف قتل عمد میں دیت کے قائل ہیں؟اگر نہیں تو کیا ان بیس کروڑ روپوں کو دیت قرار دیناصحیح ہو گا۔
(ب)اگر احنا ف قتل عمد میں دیت کے قائل نہیں تو جن احادیث میں قصاص،معافی یا دیت تینوں کا ذکر آتا ہے ،ان کا صحیح مطلب کیا ہو گا؟اور عویٰ نسخ کی صورت میں اس کی دلیل کیا ہو گی؟
(ج)اگر مقتول کے ورثاء میں سے کو ئی ایک وارث اپنا حق (خواہ قصاص ہو ،معافی یا دیت ،وصول کیے بغیر مر جا ئے یا خودکشی کر لے اور صرف قصاص ہی اس کا مطالبہ ہو تو کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثا ء قصاص کے حق سے دستبردار ہوکر دیت یا معافی کا حق استعمال کر سکتے ہیں؟
(د)دیت کی وہ کیا شرائط ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے ؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(د): 978=130-6/1432
(۱) ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ اس کا مذہب کیا ہے؟ اسلام یا اس کے علاوہ؟ نیز یہ بھی واضح کریں کہ مقتول مسلمان ہے یا ذمی، یا حربی، یا مستامن؟
(۲) احناف کے یہاں قتل عمد کا موجب اصلی قصاص ہے الا یہ کہ فریقین کسی مال پر صلح کرلیں یا مقتول کے ورثہ میں سے کوئی ایک یا سب قصاص چھوڑکر مال لینے پر راضی ہوجائیں اسی طرح ”شامی“ میں ہے۔
(۳) ان احادیث کا متن لکھ کر ارسال کریں جن میں تینوں کی بات آئی ہے۔
(۴) ورثہ کے لیے قصاص ہی کا مطالبہ لازم نہیں ہے بلکہ ان کو اختیار ہے کیوں کہ یہ اب ان کا حق ہے۔
(۵) قتل عمد میں اولیائے مقتول اور قاتل کا راضی ہونا ضروری ہے اور بقیہ قتل کی چند قسموں میں دیت ہی واجب ہوتی ہے جیسا کہ بدائع میں ہے: ”ومنہا الصلح علی مال إلخ“ (۶/۲۹۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :31718
تاریخ اجراء :May 11, 2011