جب رشوت لینا دینا دونوں منع ہے تو اپنا جائز حق لینے والے كا رشوت دینا كیونكر صحیح ہے؟

سوال کا متن:

رشوت لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں تو آج کل یہ کیوں کہا جاتاہے کہ اپنے جائز کام کے لیے دے سکتے ہیں؟ کیا یہ اجتہاد ہے؟ اور اگر اجتہاد ہے تو کیا ایسا اجتہاد صحیح ہوجائے گا جو قرآن وسنت سے ٹکرائے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 526-476/M=05/1440
حدیث کے مطابق ، رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ملعون و گنہ گار ہیں، یہ بات صحیح ہے، عام حالات میں یہی حکم ہے کیونکہ اس سے حق کا ابطال لازم آتا ہے اور ناحق طریقے پر کام کرنے، کرانے کا جذبہ ابھرتا ہے لیکن بعض مرتبہ صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ دینے والا مظلوم و مجبور ہوتا ہے مثلاً مال دیئے بغیر اپنا جائز اور واجبی حق وصول نہ ہوتا ہو یا دفع ظلم و ضرر کے طور پر دیتا ہو تو یہ حقیقت میں رشوت نہیں اس لئے فقہاء کرام نے دینے والے کے لئے ایسی صورت حال میں صرف دینے کی گنجائش دی ہے، یہ قرآن و سنت کے مقابلے میں اجتہاد نہیں۔ حدیث کے مصداق اور فقہاء کی اجازت کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے۔ دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ، لیس برشوة یعنی فی حق الدافع (شامی: ۹/۵۱۲، أشرفی) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168153
تاریخ اجراء :Jan 31, 2019