انشورنس کمپنی میں کام كیسا ہے ؟

سوال کا متن:

میں ایک انشورنس کمپنی میں کام کررہاہوں جو ایک امریکی ہیلتھ انشورنس کمپنی کے ساتھ کام کرتی ہے، میرا کام انشورنس کمپنیوں کو فون کرنا یا انشورنس ویب سائٹوں سے مریض کے ہیلتھ انشورنس پلان کے مطابق جانکاری حاصل کرنا ہے اور پھر سسٹم میں تفصیلات کو درج کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام کرنا حلال ہے یا حرام؟براہ کرم، میری رہنمائی فرمائیں ۔ اگر میری ملازمت حرام ہے تو مجھے اپنی تنخواہ کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟میرے آمدنی کا کوئی اور دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:103-35T/N=4/1439
(۱- ۳): دیگر انشورنسس کی طرح میڈیکل انشورنس میں بھی سود اور جوے کی حقیقت پائی جاتی ہے اور سود اور جوا دونوں اسلام میں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں؛ اس لیے جس طرح میڈیکل انشورنس کرنا اور کرانا حرام وناجائز ہے، اسی طرح کسی انشورنس کمپنی میں میڈیکل انشورنس سے متعلق کسی کام کی ملازمت بھی حرام وناجائز ہے، جیسے: بینک میں سودی حساب کتاب چیک کرنے یا اس کی نگرانی وسرپرستی کی ملازمت ناجائز ہے؛ اس لیے آپ کسی انشورنس کمپنی میں سوال میں مذکور جو ملازمت کررہے ہیں، یہ شرعاً جائز نہیں ہے، آپ جلد از جلد یہ ملازمت ترک کردیں اور کوئی دوسرا جائز ذریعہ معاش اختیار کریں۔ اور جب کوئی جائز ذریعہ معاش مل جائے تو ناجائز ملازمت سے حاصل کردہ ساری تنخواہ حسب سہولت تھوڑی تھوڑی کرکے چند سالوں میں بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد ،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قال القرطبي فی المفھم (۴:۵۰۰، ط: دار ابن کثیر دمشق، بیروت):وفي معنی المعطي: المعین علیہ، وکاتبہ: الذي یکتب وثیقتہ، وشاھداہ: من یتحمل الشھادة بعقدہ وإن لم یوٴدھا، وفي معناہ: من حضر فأقرہ اھ، وقال الأبي في إکمال الإکمال (۴:۲۸۰،ط:دار الکتب العلمیة بیروت):ودخول الکاتب والشاھد لإعانتھما علی ھذہ المعصیة (ط)، والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ، وقال السنوسي في مکمل إکمال الإکمال (مع إکمال الإکمال۴:۲۸۱):والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ (ب)اھ، و فی الکاشف عن حقائق السنن للطیبي (ص ۲۱۲۴،ط: مکتبة نزار مصطفی الباز، مکة المکرمة):فیہ تصریح بتحریم کتابة المتبایعین المترابیین والشھادة علیھما وبتحریم الإعانة علی الباطل کنایة اھ، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی :ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء………،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
 
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :155690
تاریخ اجراء :Dec 27, 2017