بینك سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا

سوال کا متن:

(۱) میں ایک پرائیویٹ فارما کمپنی میں کام کر رہا ہوں،اور مجھے ہر سال انکم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی میرے پاس تین بینک کے اکاوٴنٹس یعنی ایچ ڈی ایف سی، بینک آف انڈیا اور ایس بی آئی ہیں، تو کیا میں ان بینکوں سے حاصل شدہ سودی رقم کو انکم ٹیکس کی ادائیگی کے لیے استعمال کرسکتا ہوں؟
(۲) میرا ٹیکس ایچ ڈی ایف سی بینک سے منہا ہو جاتا ہے اس لئے میں نے تمام بینکوں کی سودی رقم اور ڈپوزٹ رقم کو ایچ ڈی ایف سی بینک میں جمع کیا ہے اور پھر میں ایچ ڈی ایف سی بینک سے ٹیکس ادا کروں گا تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
(۳) کیا میں انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے ایچ ڈی ایف سی بینک سے سود ی رقم استعمال کرسکتا ہوں ؟ اگر نہیں! تو پھر میں پرائیویٹ بینک کی سودی رقم کا استعمال کیوں نہیں کرسکتا؟
(۴) کیا میں اپنے والد صاحب اور بھائی کے اکاوٴنٹ کی سودی رقم کواپنے انکم ٹیکس کی ادائیگی کے لیے استعمال کرسکتا ہوں؟
(۵) کیا میں100000 روپئے ڈپوزٹ اپنی بیوی کے سیونگ اکاوٴنٹ میں اس نیت سے جمع کرسکتا ہوں کہ جو بھی اس سے سودی رقم بنے گی اسے میں اپنے انکم ٹیکس کے لیے استعمال کروں گا تو کیا ایسا کرنا صحیح ہوگا؟
(۶) میں نے 300000 روپئے سرمایہ کاری کی ہے اور دوسرا 50000 روپئے اپنے دوست کے ساتھ تجارت میں، تو کس رقم پر زکات واجب ہوگی، آیا مجموعی رقم پر یا صرف منافع والی رقم پر؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1336-1431/SN=1/1439
(۱، ۲، ۳) ان میں سے جو بینک سرکاری ہو صرف اس سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز ہے، پرائیویٹ بینک جیسے HDFC سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں صرف کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انکم ٹیکس میں سود کی رقم صرف کرنے کی فقہی تخریج یہ ہے کہ یہ درحقیقت اصل مالک کو اس کی رقم لوٹانا ہے یعنی سود کی رقم کا اصل مصرف یہ ہے کہ جس سے وصول کی گئی ہے اسی کو لوٹا دی جائے (اگر یہ متعذر ہو یا خلافِ مصلحت ہو تو پھر تصدق) اگر سرکاری بینک سے حاصل شدہ رقم انکم ٹیکس میں ادا کی جائے تب تو رد إلی المالک کی شکل پائی جاتی ہے؛ کیونکہ دونوں ادارے (بینک اور محکمہ انکم ٹیکس) سرکاری ہیں، اگر بینک ہی کو واپس کی جاتی تب بھی سرکار کو ملتی اور انکم ٹیکس میں جمع کرنے کی صورت میں بھی سرکار کے خزانے میں جاتی ہے، غیر سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم اگر انکم ٹیکس میں دی جائے تو رد إلی المالک کی شکل متحقق نہیں ہوتی؛ اس لیے غیر سرکاری بینکوں سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس کا تصدق واجب ہے۔
(۴) جی ہاں! کرسکتے ہیں بہ شرطے کہ وہ بینک سرکاری ہوں۔
(۵) اپنی گاڑھی کمائی کو ظالمانہ ٹیکس سے بچانے کے لیے اس کی بھی گنجائش ہے۔ (دیکھیں: جواہر الفقہ: ۴/۴۷۱، ط: زکریا)
(۶) مجموعی رقم پر ،صرف منافع پر نہیں؛ بلکہ اگر وہ رقم سال پورا ہوتے وقت بہ شکل مالِ تجارت ہو تو کل مال کی مارکیٹ ویلو پر زکات واجب ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :153517
تاریخ اجراء :Oct 15, 2017