وتر پڑھنے كا افضل وقت كیا ہے؟

سوال کا متن:

چند دن پہلے ایک دوست نے یہ کہا کے ہمارے عالم صاحب جو کہ ایک سنی اور حنفی مسلک ہیں، انہوں نی یہ کہا کے وتروں کیبعد نوافل ادا کرنا بدعت ہے کیونکے احادیث کے صاف الفاظ میں عبارت ہے کے " رات کے آخری نماز وتر ہے "، اس دن سے بندہ ناچیز کافی پریشان ہوا. کیونکے کے عمومی طور پے رات کے وتر کے بعد ۲ نفل پڑھے جاتے ہیں، اور اگر تہجد میں اٹھ جائیں تو کچھ نوافل اور بھی ادا کرلے جاتے ہیں ، اب انہوں نے اس کو بدعت قرار دے دیا.
گزشتہ دن جب بخاری شریف میں دیکھا تو وہاں بے یہی عبارت ملی.
اب بنیادی مسئلہ یہ ہے کے اس حدیث کے تشریح احناف، اور اہلسنّت والجماعت کے جمہور علما کے نزدیک کیا ہے ؟
اور ایک عام مسلمان کو اس مسلہ میں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہے، آیا نوافل بعد از وتر ترک کردے یا ادا کرتا رہے ؟
قران اور احادیث کے روشنی میں جواب ارشاد فرماکر تسلی اور تشفی فرمائیں

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی: 1045-797/D=10/1434
حنفیہ کے یہاں روایات حدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں مستحب اور افضل طریقہ یہ ہے کہ جتنے نوافل پڑھنا چاہے وتر سے پہلے پڑھ لے اور وتر آخر میں پڑھے جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ رات کی آخری نماز وتر کوبناوٴ، مگر بعض روایات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے عن أبي سلمة قال سألت عائشة رضي اللہ تعالی ٰعنہا عن صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت کان یصلي ثمان رکعات ثم یوتر ثم یصلي رکعتین وہو جالس فإذا أراد أن یرکع قام فرکع ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامة من صلاة الصبح (صحیح مسلم: ۱/۲۵۴) اس کے علاوہ ابن ماجہ نسائی وغیرہ میں اس مفہوم کی اور بھی رواتیں موجود ہیں، مذکور الصدر روایت میں پہلے ثم یصلی رکعتین سے وتر کے بعد کی نفل مراد ہونا صاف ظاہر ہے، جب کہ دوسرے ثم یصلی رکعتین سے فجر کی دو سنت مراد ہے۔ لہٰذا جو چیز حدیث اور سنت سے ثابت ہو اسے بدعت کہنا سخت گناہ اور جسارت کی بات ہے۔ آپ وتر کے بعد کبھی کبھی دو نفل پڑھ لیا کریں حرج نہیں اور اگر وتر رات میں پڑھ چکے پھر تہجد میں اٹھ کر تہجد پڑھنا چاہتے ہیں تو اس میں بھی حرج نہیں اکثر ائمہ کے نزدیک وتر کے بعد نوافل یا تہجد پڑھنے سے وتر خراب نہیں ہوتی۔ قال إمامنا محمد لا نری أن یشفع إلی الوتر بعد الفراغ من صلاة الوتر لکنہ یصلي بعد وترہ ما أحب ولا ینقص وترہ وہو قول أبي حنیفة (موطا إمام محمد) تعلیق الممجد میں لکھا ہے کہ اسی کے قائل امام شافعی امام مالک اوزاعی امام احمد ابوثور علقمہ ابومجلز طاوٴس نخعی رحمہم اللہ ہیں۔ آپ خواہ مخواہ کی تشویش میں نہ پڑیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :46821
تاریخ اجراء :Aug 26, 2013