ایک گاڑی اگر پچاس ہزار کی ھے اور قسطوں پر اسکی قیمت ساٹھ ھزار ہوتی ہے ایسی صورت میں کیا گاڑ؛ی لینا جائز ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں پتہ ہے کہ ان قسطوں میں کچھ حصہ سود کا بھی شامل ہے ؟ آپ کے مسائل اور انکا حل کتاب میں اس مسئلہ کو

سوال کا متن:

ایک گاڑی اگر پچاس ہزار کی ھے اور قسطوں پر اسکی قیمت ساٹھ ھزار ہوتی ہے ایسی صورت میں کیا گاڑ؛ی لینا جائز ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں پتہ ہے کہ ان قسطوں میں کچھ حصہ سود کا بھی شامل ہے ؟ آپ کے مسائل اور انکا حل کتاب میں اس مسئلہ کو درست بتا یا ہے کہ قسطوں کی رقم ایک بار مقرر کردے تو یہ سود کے حکم میں شامل نہیں ہو گا. اس مسئلہ کا حل بتا دیں۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1052-844/D=10/1436-U نقد فروخت کرنے میں سامان کی قیمت کم ہو اور ادھار میں زیادہ ہوجائے ایسا جائز ہے بشرطیکہ کوئی ایک قیمت متعین ہوکر حتمی طور پر معاملہ اس پر ہوجائے مثلاً نقد لے رہے ہیں تو نقد قیمت پر، ادھار لے رہے ہیں تو ادھار قیمت پر، تذبذب اور تردد نہ رہے مثلاً اگر نقد ادا کردیا تو اتنا ادھار ادا کیا تو اتنا۔ پھر ادھار قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی بات بھی طے ہوسکتی ہے، حرج نہیں۔ مگر اس میں بھی وقت بڑھنے کے اعتبار سے قیمت میں اضافہ کی بات نہ ہو، مطلب یہ کہ قسطوں میں ادا کی جانے والی رقم اور مدت دونوں متعین ہوجائے، مذکورہ صورت اس وقت جائز ہے جب آپ براہ راست کسی (شو روم) سے خرید رہے ہوں، اور اکر بینک کے ذریعہ خریدیں تو ضروری ہے کہ بینک گاڑی خریدکر اپنے اضافہ کے ساتھ (خواہ وہ سود کے نام سے ہو) آپ کے ہاتھ فروخت کرے؛ لیکن بینک ایسا نہیں کرتے ہیں ، وہ تو لون (قرض) دیتے ہیں جسے قسطوں میں وصول کرتے ہیں، ایسی صورت میں اضافہ یقینا سود ہے اور اس طرح لون پر گاڑی لینا ناجائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :60582
تاریخ اجراء :Aug 1, 2018