کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:اگر امام نماز میں ثناء پڑھنے کے بعد بسم اللہ بلند آواز سے پڑھ کر قر أ ت شروع کرے اور دوسری رکعت میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے پڑھے تو کیا ایسا کرنا کسی حد

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:اگر امام نماز میں ثناء پڑھنے کے بعد بسم اللہ بلند آواز سے پڑھ کر قر أ ت شروع کرے اور دوسری رکعت میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے پڑھے تو کیا ایسا کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟ اور اگر امام سورہ فاتحہ پڑھ کر وقفہ کرے پھر سورت پڑھے، کیا ایسا کرنا کسی امام کے نزدیک جائز ہے، اگر ہے تو کتنی دیر؟

جواب کا متن:


بسم الله الرحمن الرحيم فتوی (ل) 166=39tl/1432
 (۱) مذہب حنفیہ میں بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا سنت ہے اور جہر سے پڑھنا ترک اولی ہے۔ 
عن عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ قال سمعنی ابی و انا فی الصلوة اقول بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال لی ای بنی محدث ایاک والحدث قال و لم أر احدا من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان ابغض الیہ الحدث فی الاسلام یعنی منہ ۔(ترمذی شریف ۱/۷۵)
بسم اللہ زور سے پڑھنا یہ امام شافعی رحمة اللہ وغیرہ کا مسلک ہے اور بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن یہ تمام حدیثیں یا تو صحیح نہیں یا صریح نہیں نیز ان میں تاویل کی گنجائش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بہ طور تعلیم کے ہو۔
وروایات الفریق الثانی مجملة أو أدون إسناداً عن الاول و مع ہذا فہی ما یمکن حملہا و تاویلہا إلی احادیث الفریق الأول (معارف السنن ۲/۴۶۳)
و قد ثبت الجہر فی مواضع لأجل التعلیم منہا ما رواہ السیوطی أنہ صلی اللہ علیہ وسلم جہر بالقراء ة في صلاة الظہر و قال بعد الفراغ انما جہرت لتعلموا۔ 
و منہا ما في ”کتاب الآثار“ جہر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سبحانک اللہم الخ للتعلیم
پتہ چلا کہ اگر امام حنفی المسلک ہے تو اس کو سراً بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور اگر امام شافعی المسلک ہے تو وہ اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے بسم اللہ جہراً پڑھ سکتا ہے ایسے امور میں اختلاف نہ کرنا چاہیے کہ سب مذاہب صحیح ہیں۔ 
(۲) احادیث میں تین جگہ سکتہ کا ذکر ملتا ہے۔ عن سمرة رضی اللہ تعالی عنہ سکتتان حفظتہما عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأنکر عمران بن حصین قال حفظنا سکتة فکتبا الی ابی بن کعب بالمدینة فکتب أبی ان حفظ سمرة قال سعید: فقلنا لقتادة ما ہاتان السکتتان قال : اذا دخل فی صلاتہ ، و اذا فرغ من القرا ء ة ، ثم قال بعد ذلک و اذا قرأ و لالضالین قال : و کان یعجبہ اذا فرغ من القراء ة ان یسکت حتی یتراد الیہ نفسہ ۔
ان میں سے ایک جگہ ولاالضالین کے بعد ہے حنفیہ کے نزدیک یہ سکتہ اس لیے ہے کہ امام آمین کہہ لے اس لیے حنفیہ کے نزدیک مختصر سکتہ کرنے کا حکم ہے البتہ حنفیہ کے علاوہ حضرات شوافع حنابلہ وغیرہ کے یہاں اس سکتہ سے مقصود یہ ہے کہ امام آرام کرلے اور مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لیں اس لیے ان کے نزدیک سکتہ طویلہ جائز ہے۔
 قال فی المغنی! یستحب ان یسکت الإمام عقیب قراء ة الفاتحة سکتة یستریح فیہا و یقرأ قیہا من خلفہ الفاتحة کیلا ینازعوہ فیہا و ہذا مذہب الاوزاعی والشافعی و اسحاق و کرہہ مالک و اصحاب الرأی ۔
حاصل یہ ہے کہ ولاالضالین کے بعد سکتہ طویلہ حضرات شوافع و حنابلہ کے یہاں جائز ہے حنفیہ کے یہاں مکروہ ہے۔ اہل عرب بالعموم حنبلی المسلک ہوتے ہیں ممکن ہے کہ وہ حضرات اپنے امام کی اقتدا کرتے ہوئے سکتہ طویلہ کرتے ہوں۔ حنفی امام کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔ فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :29631
تاریخ اجراء :Jan 18, 2011