میں احمد آباد گجرات کا رہنے والا ہوں ۔میں نے ۲۴/مارچ ۲۰۰۸ء کے (دویابھاسکر) گجراتی اخبار میں ایک خبر پڑھی۔ اس خبر میں لائف انشورنس اور پراپرٹی انشورنس کے بارے میں لکھا تھا۔ (۱) کہ اب مسلمان شیئر مارکیٹ میں شیئر کی خریدو فرو

سوال کا متن:

میں احمد آباد گجرات کا رہنے والا ہوں ۔میں نے ۲۴/مارچ ۲۰۰۸ء کے (دویابھاسکر) گجراتی اخبار میں ایک خبر پڑھی۔ اس خبر میں لائف انشورنس اور پراپرٹی انشورنس کے بارے میں لکھا تھا۔ (۱) کہ اب مسلمان شیئر مارکیٹ میں شیئر کی خریدو فروخت کرسکتے ہیں۔ (۲) اور انھو ں نے یہ بھی لکھا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے مسلمان اپنا لائف انشورنس کراسکتے ہیں نیز وہ پراپرٹی انشورنس بھی کراسکتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ یہ فتوی ، مسلم پرسنل لاء بورڈ ، دارالعلوم دیوبند، جماعت اسلامی ہند اورہندوستان کے دوسرے تین سو مدارس کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔ مولانا صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ صحیح ہے؟


(۲) گجرات کے کچھ مدارس نے بینک میں پیسہ جمع کرنے کے متعلق فتوی جاری کیا ہے۔ اس فتوی میں انھوں نے کہا ہے کہ ہم پیسہ جمع کرسکتے ہیں اور اس پیسہ پر ہم زائد رقم یعنی سود لے سکتے ہیں اور ہم اس سود کو اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں اور اس کو ہم مذہبی مقاصد کے پیش نظر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کچھ لوگ چند مدت کے لیے بینک میں پیسہ جمع کرتے ہیں اور اس مدت کے بعد ان کو دوگنا پیسہ ملتا ہے۔ برائے کرم مجھے بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ کیا ہم اس طرح کا پیسہ اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اور ان میں کے کچھ نے کہا کہ یہ پیسہ مال مباح ہے، اور میں الجھن میں پڑ گیا ہوں۔ برائے کرم قرآن اورحدیث کی روشنی میں مشورہ دیں۔ اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 886=815/ ب
 
دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ایسا کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا گیا ہے جس میں لائف انشورنس کے جواز کی بات کہی گئی ہو، اخبار میں جو فتویٰ شائع کیا گیا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب کیا گیا ہے، وہ غلط ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ اب بھی حسب سابق ہے کہ جہاں ہروقت جان و مال کا خطرہ لگا ہوا ہو، وہاں پر لائف انشورنس کی بدرجہٴ مجبوری اجازت ہوسکتی تھی اور ایسی سنگین صورت حال ہندوستان کی کسی بھی جگہ میں نہیں پائی جاتی ہے، لہٰذا ہندوستان میں لائف انشورنس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
( ۲) اپنے پاس کثیر رقوم کو رکھنے میں چونکہ ہروقت خطرہ لاحق ہوتا ہے، ایسی صورت میں بدرجہٴ مجبوری بغرض حفاظت بینک میں رکھنے کی گنجائش ہے۔ سود لینے کی نیت سے رکھنا حرام ہے۔ البتہ جو انٹرسٹ کی رقم ملے، اس کو بلانیت ثواب غریبوں کے درمیان صدقہ کردینا واجب ہے۔ اپنی ذاتی ضروریات یا مذہبی ضروریات میں خرچ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :5104
تاریخ اجراء :میں احمد آباد گجر