میرے ایک دوست نے کہا کہ مردے کو دفن کرتے وقت منہا خلقناکم ․․․․․․․․․․․پڑھنا مستحب نہیں ہے بلکہ ہم کو صرف بسم اللہ کہنا چاہیے۔ برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ کیا اس کا کہنا صحیح ہے اور منہا خلقناکم ․․․․․․والی حدیث ضعیف ہے؟ برائے

سوال کا متن:

میرے
ایک دوست نے کہا کہ مردے کو دفن کرتے وقت منہا خلقناکم ․․․․․․․․․․․پڑھنا مستحب نہیں ہے
بلکہ ہم کو صرف بسم اللہ کہنا چاہیے۔ برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ کیا اس کا کہنا
صحیح ہے اور منہا
خلقناکم ․․․․․․والی حدیث ضعیف ہے؟
برائے کرم حدیث کے حوالہ سے جواب عنایت فرماویں۔


جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب):1628=147 tb-11/1430
 
علامہ
شامی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم صلی علی جنازة ثم أتی القبر فحثی علیہ من قبل رأسہ ثلاثا اس کے بعد کوئی دعا نہیں
ہے۔ پھر بعد میں الجوہرہ کے حوالہ سے لکھا ہے، ویقول في الحثیة الأولی منہا خلقناکم
وفي الثانیة وفیہا نعیدکم وفي الثالثة ومنہا نخرجکم تارة أخری ․ وقیل: یقول في الأولی
اللہم جاف الأرض من جنبیہ وفي الثانیة اللہم افتح أبواب السماء لروحہ وفي الثالثة
اللہم زوجہ من الحور العین وللمرأة اللہم أدخلھا الجنة برحمتک ․ اتنا لکھنے کے بعد حدیث
ملی جس کو حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر (ج: ۱ ، ص: ۱۶۴) میں
حضرت ابوامامہ سے نقل کیا ہے، جس کو حاکم نے اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس کی
سند ضعیف ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لما وضعت أم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
في القبر قال رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم منہا خلقناکم وفیہا نعیدکم ومنہا نخرجکم
تارة أخری بسم اللہ وفي سبیل اللہ، وعلی ملة رسول اللہ بحوالہ اعلاء السنن ص: ۹-۸ ، ص: ۲۵۵ ۔
بہرحال
ان دعاوٴں کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، اور مستحب کے درجہ میں ہے کیونکہ ضعیف ہے اس
لیے سنت وواجب لاگو نہ ہوگا۔ صرف بسم اللہ پڑھنے کی کوئی حدیث نظر سے نہیں گذری۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :16472
تاریخ اجراء :میرے ایک دوست نے