ایک بچی جو کہ اس دنیا میں زندہ پیدا نہیں ہوئی اس کا نماز جنازہ بھی نہیں ہوگا۔ کیا وہ بچی آخرت میں ماں باپ کے کام آئے گی اور کیا اس بچی کا نام رکھا جاسکتا ہے، تاکہ پکارنے میں آسانی ہو؟

سوال کا متن:

ایک بچی جو کہ اس دنیا میں زندہ پیدا نہیں ہوئی اس کا نماز جنازہ بھی نہیں ہوگا۔ کیا وہ بچی آخرت میں ماں باپ کے کام آئے گی اور کیا اس بچی کا نام رکھا جاسکتا ہے، تاکہ پکارنے میں آسانی ہو؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 611=611/ م
 
جی ہاں! وہ مردہ بچی آخرت میں ان شاء اللہ ماں باپ کے کام آئے گی یعنی شفاعت کرے گی، اور اس بچی کا نام رکھ دینا چاہیے۔ شامی میں ہے: والمختار أنہ یغسل، وھل یحشر؟ عن أبي جعفر الکبیر أنہ إن نفخ فیہ الروح حشر، وإلا لا ․․․․ ووجھہ أن تسمیتہ تقتضی حشرہ، إذ لا فائدة لھا إلا في ندائہ في المحشر باسمہ، وذکر العلقمي في حدیث: سَمُّوا أسقَاطَکُم فإنھم فرطُکم (الحدیث) فقال: فائدة: سأل بعضھم ھل یکون السقط شافعًا؟ ومتی یکون شافعًا؟ ھل ھو من مصیرہ علقةً أو من ظھور الحمل، أم بعد مضي أربعة أشھر، أم من نفخ الروح؟ والجواب أن العبرة إنما ھو بظھور خلقہ وعدم ظھورہ الخ (شامي زکریا، ج ۳ ص ۱۳۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :6316
تاریخ اجراء :Aug 7, 2008