امام صاحب کو رمضان میں کچھ رقم بطور انعام دی جاتی ہے خواہ امام صاحب قرآن سنائیں یا نا سنائیں كیا یہ درست ہے؟

سوال کا متن:

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ امام صاحب کو رمضان میں کچھ رقم بطور انعام دی جاتی ہے خواہ امام صاحب قرآن سنائیں یا نا سنائیں نیز امام صاحب کو رکھتے وقت یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ آپ کی تنخواہ اتنی ہے اور نکاح خوانی بھی آپ کی نیز ہم رمضان آپ کو اپنی حیثیت کے مطا بق ہدیہ بھی دیں گے، اس ہدیہ کا قرآن سننے سنانے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ہدیہ کبھی عید پر کبھی ختم قرآن پر کبھی پہلے کبھی بعد میں دیتے ہیں تو کیا یہ رقم امام کے لئے جائز ہے شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔ عین کرہوگا۔

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:891-750/SD=10/1440
اگر ختم قرآن کے موقع پر مسجد کے مستقل امام کو بطور انعام ہدیہ پیش کیا جائے اور اس ہدیہ کے لیے امام کا تراویح میں قرآن سنانا کسی بھی درجے میں بھی مشروط یا معروف نہ ہو ، اگر امام صاحب تراویح میں قرآن نہ سنائیں ، تب بھی امام کو سال بھر کی خدمات کی وجہ سے ہدیہ پیش کیا جائے ، تو اس ہدیہ کا لین دین شریعت کی رو سے جائز ہے ؛ البتہ بہتر یہ ہے کہ ختم قرآن کے دن کے علاوہ کسی دوسرے دن امام کو ہدیہ دیدیا جائے، ائمہ کرام کو امامت کی خدمات کی وجہ سے ہدایا سے نوازنا بہت مستحسن عمل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171064
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019