کیا دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے؟

سوال کا متن:

میں ایک لڑکی سے بہت پیار کرتا تھا اور پانچ سال پہلے ہم دونوں نے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ لڑکی کے والدین راضی ہوگئے لیکن میرے والدین نے یہ بات کہ کر ٹال دیا کہ ابھی تمھاری تعلیم مکمل نہیں اور ہم دیکھ بھال کر کسی اچھے گھرانے میں رشتہ کریں گے۔میں لڑکی سے نکاح سے پہلے وہ سب کچھ کر چکا تھا جو میاں بیوی کرتے ہیں اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے نکاح کر لیا کہ کہیں اللہ کا عذاب مجھ پر نہ آجائے۔میں نے اپنے گھر والوں سے چھپ کر لڑکی کے گھر والوں کے سامنے نکاح کر لیا۔میری طرف سے دو گواہ تھے۔اب میرے گھر والے اس لڑکی کے ساتھ شادی کے لئیے راضی ہیں اور وہ نکاح کا کہ رہے ہیں۔اگر میں نے اپنے گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ میں نکاح کر چکا ہوں تو رشتہ داروں میں بدنامی ہوگی اور ساتھ یہ بھی ڈر ہے کہیں ابو یا امی کو بہت زیادہ دکھ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہوجائیں ۔ مہربانی کر کے مجھے بتائیں کیا میں دوبارہ نکاح کر سکتا ہوں۔ پہلے نکاح میں حق مہر 50000 روپے تھا اور اب دوسرے نکاح میں حق مہر کتنا ہونا ضروری ہے؟

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1055-915/L=10/1440
 صورت مسئولہ میں اگر آپ نے شرعی طریقے پر دو گواہوں کے سامنے نکاح کرلیا ہے تو شرعاً آپ کا نکاح صحیح ہوگیا، دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر آپ بدنامی یا والدین کے مریض ہوجانے کے اندیشہ سے دوبارہ بڑے مجمع میں نکاح کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں نکاح ثانی لغو مانا جائے گا، البتہ نکاح ثانی میں اگرمہر پہلے سے زیادہ مقرر کیا جائے تو وہ زیادتی بھی لازم ہوگی الاّ یہ کہ نکاحِ ثانی اور مہرِ ثانی کے ہزل ومذاق ہونے پر گواہ موجود ہوں تو پھر زیادتی لازم نہ ہوگی ۔
جدد النکاح بزیادة ألف لزمہ ألفان علی الظاہر․ قال الشامی: حاصل عبارة الکافی: تزوجہا فی السر بألف ثم فی العلانیة بألفین ظاہر المنصوص فی الأصل أنہ یلزم الألفان ویکون زیادة فی المہر․․․ وعند الإمام أن الثانی وإن لغا لا یلغو ما فیہ من الزیادة ․․․ وذکر فی الفتح أن ہذا إذا لم یشہدا علی أن الثانی ہزل وإلا فلا خلاف فی اعتبار الأول، فلو ادعی الہزل لم یقبل بلا بینة․(الدرالمختار مع رد المحتار: ۴/ ۲۴۷کتاب النکاح، مطلب: فی أحکام المتعة ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :170615
تاریخ اجراء :Jul 7, 2019