جب آسمان صاف ہو تو رمضان اور عید کے چاند کے واسطے كتنے لوگوں كی گواہی كافی ہے؟

سوال کا متن:

سوال: 17/11/2018 باسمہ تعالٰی محترم المقام حضرت مفتی صاحب (دار الافتاء۔ دار العلوم دیوبند)،
بعد سلام مسنون عرض یہ ہیکہ مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں بندہ گذشتہ رمضان کی ۲۹ تاریخ سے سخت الجھن کا شکار ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ رمضان المبارک کی ۲۹ تاریخ کو شام کے وقت تقریبا پورے صوبہ گجرات اور خاص کر سورت، نوساری، بلساڑ اور بھروچ وغیرہ اضلاع میں مغربی مطلع بالکل صاف شفاف تھا یعنی بادل،بارش وغیرہ کا کوئی ماحول نہیں تھا۔ ملک بھر کے لوگ چاند دیکھنے کے لیے اپنی نظریں مغربی آسمان کی طرف جمائے ہوئے تھے یعنی چاند تلاش کر رہے تھے ۔ عشاء کی نماز کے بعد راندیر (سورت ) چاند کمیٹی کی جانب سے اطلاع آتی ہے کہ چاند ہو چکا ہے ۔ جس پر لوگ تراویح سے رک جاتے ہیں اور عید کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں اور دوسرے دن عید منائی جاتی ہے ۔اطلاع کے مطابق اس سال صوبہ گجرات میں دو عیدیں ہوئیں بلکہ ہندوستان کے اکثر صوبوں میں پورے ۳۰ روزے رکھے گئے ۔ بندے کے والد مرحوم عامہ المسلمین سے متعلق مسائل پر گہری نگاہ رکھا کرتے تھے ۔علماء سے مذاکرے اور مشورے کیا کرتے تھے ان میں ایک مذاکرہ رویت ہلال کا بھی ہوا کرتا تھا جس کی بنیاد پر بندہ ناچیز کو بھی کافی معلومات حاصل ہو جایا کرتی تھی تو بندہ کو جو جانکاری مرحوم کی برکت سے حاصل ہوئی ہے اس کے مطابق جب مطلع بالکل صاف ہو اس وقت ۲ یا ۵ آدمیوں کا الگ الگ جگہوں پر چاند دیکھ لینا رمضان کے اختتام کے اعلان کے لیے کافی نہیں ہوگا بلکہ ایک جم غفیر کا ایک ساتھ ایک جگہ چاند دیکھنا ضروری ہوگا ۔ ناچیز کی تحقیق کے مطابق امسال کسی بھی جگہ اس طرح جم غفیر کی رویت ثابت نہیں ہوئی ہے ۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں شروع ہی سے بندے کو سخت تشویش ہے تاہم پورے شہر میں عید منائے جانے کی وجہ سے بندہ کو بھی مجبورا عید منانا پڑی ۔ لہٰذا ارباب دارالافتاء کتاب وسنت کی روشنی میں بندے کی رہبری فرمائیں تاکہ بندے کے دل میں جو خلجان ہے کہ آیا مجھے ایک روزہ قضاء کر لینا چاہیے یا نہیں وہ دور ہوجائے ۔
بینوا وتوجروا

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 472-73T/D=06/1440
جب آسمان گرد و غبار اور بادل وغیرہ سے صاف ہو تو رمضان اور عید کے چاند کے واسطے ایک بڑی جماعت کا چاند دیکھنا اور اس کی شہادت دینا ضروری ہے۔ قال فی المراقی: و إذا لم یکن بالسماء علة فلا بد للثبوت من شہادة جمع عظیم لرمضان والنظر وغیرہما الخ ص: ۶۵۴۔
قلیل و کثیر تعداد کا معیار کیا ہے؟ تعداد کے سلسلے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ امام (یعنی فیصلہ کرنے کمیٹی یا فرد) کی صوابدید پر ہے یعنی جس قدر لوگوں کی خبر اور شہادت پر اسے اطمینان حاصل ہو جائے۔ وفی التجنیس عن محمد أن أمر القلة والکثرة (مفوض إلی رأی الإمام) وہو الصحیح وفی البرہان (فی الاصح) لان ذالک یختلف باختلاف الأوقات والأماکن وتتفاوت الناس صدقاً مراقی: ص: ۶۵۵۔
جب معتمد علماء کی کمیٹی نے فیصلہ کردیا تو پھر خواہ مخواہ شک و شبہ میں پڑنا فضول ہے لقولہ علیہ السلام صومکم یوم تصومون وفطرکم یوم تفطرون یعنی تم اس دن روزہ رکھو جب لوگ روزہ رکھیں اور تم اس دن فطر مناوٴ جب لوگ فطر (عید) بنائیں لہٰذا علاقہ کے معتمد علماء کرام یا کمیٹی نے شہادت کی بنیاد پر چاند ہونے کا فیصلہ کردیا تو اس علاقہ کے لوگوں کو اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :168374
تاریخ اجراء :Feb 18, 2019