منگیتر کے ساتھ فون پر بات یا ایس ایم ایس کرنا جائز ہے ؟

سوال کا متن:

میرا سوال یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی منگیتر کے ساتھ فون پر بات یا sms کے ذریعہ رابطہ کر سکتاہے شادی سے پہلے ؟ برائے مہربانی قرآن اور احادیث کی رو سے جواب دیں۔ شکریہ،فی امان اللہ

جواب کا متن:

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 726-690/N=7/1438
شریعت میں نکاح سے لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کے لیے جائز ہوتے ہیں اور میاں بیوی بنتے ہیں، نکاح سے پہلے دونوں ایک دوسرے کے حق میں مکمل طور پر اجنبی رہتے ہیں اگرچہ دونوں کا رشتہ طے ہوگیا ہو؛ کیوں کہ رشتہ طے ہوجانا محض پختہ وعدہ اور ارادے کا درجہ رکھتا ہے، نکاح کا درجہ نہیں رکھتا ؛ لہٰذاآج کل جو منگتیر سے آمنے سامنے، فون پر یا ایس ایم ایس کے ذریعے رابطے کا رواج ہے، یہ بالکل غلط اور خلاف شرع ہے ، دیگر اجنبیہ عورتوں اور لڑکیوں کی طرح منگتیر سے بھی اندیشہ فتنہ کی وجہ یہ سب روابط رکھنا شرعاً ناجائز ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی منگتیر سے فون وغیرہ پر میاں بیوی والی باتیں کرتا ہے تو یہ قطعاً حرام وناجائز ہوگا۔ ( فتاوی رحیمیہ ۸: ۱۵۱، سوال: ۱۹۰، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ، ۶: ۸۴، ۸۵، مطبوعہ: مکتبہ لدھیانوی، کراچی )۔
وینعقد بإیجاب وقبول (تنویر الأبصار مع الدر والرد،کتاب النکاح ۴: ۶۸، ۶۹ط مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینعقد“: ……والحاصل:أن النکاح والبیع ونحوہما وإن کانت توجد حسا بالإیجاب والقبول، لکن وصفہا بکونہا عقوداً مخصوصة بأرکان وشرائط یترتب علیہا أحکام وتنتفی تلک العقود بانتفائہا وجود شرعي زائد علی الحسی الخ (رد المحتار)۔وتقیید الاستثناء بما کان لحاجة أنہ لو اکتفی بالنظر إلیھا بمرة حرم الزائد ؛لأنہ أبیح للضرورة فیتقید بھا (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹:۵۳۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :150409
تاریخ اجراء :Apr 13, 2017